Search This Blog

Saturday, July 12, 2025


 کیمروں اور فلموں اور ڈراموں کی دنیا کو بالعموم روشنیوں کی دنیا کہا اور مانا جاتا ہے اور لاکھوں نوجوان اس لائم لائٹ مِیں آنے کے خواب دیکھتے دیکھتے جوانی اور بڑھاپے کی منزلیں طے کرتے ہیں مگر درحقیقت اس سے تاریک اور وحشت ناک دنیا دوسری کوئی نہیں۔  حال ہی میں ٹیلیویژن کی معروف سینئر ادکارہ عائشہ خان اور پھر اس  کے بعد ایک نوجوان ادکارہ حمیرا اصغر کی  دردناک اموات ان سب  افراد کے لئے باعث عبرت ہونی چاہیں جو روشنیوں کی چکا چوند، کیمروں کے لش پش اور میک اپ  کی سرخی  و تابانی کو حقیقت سمجھ کر دن رات اس کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ درجنوں کی تعداد میں کسمپرسی و لاچاری کا شکار ادکار و فنکار ، جو جوانی کے ڈھل جانے اور آواز کی کھنک ختم ہو جانے پر تنگ و تاریک کمروں کی قیدی بنے ہوئے ہیں ، زبان حال سے اس بات کی گواہی دیتے نظرآتے ہیں کہ  بظاہر چمکتی دمکتی فلم و فن کی دنیا درحقیقت کتنی تاریک  ہے۔

مذکورہ بالا دونوں اموات نے یہ حقیقت طشت از بام کر دی ہے کہ فن کی دنیا صرف چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ اگر آپ کا حسن  اور صحت برقرار  ہے، آپ کی آواز کی کھنک سننے والوں کو محظوظ کر سکتی ہے اور آپ روشنیوں کی بہائو کے درمیان چمکتے دمکتے دکھائی دے سکتے  ہیں تو  آپ قیمتی ہیں  ورنہ آپ کی لاش اگر سال چھ مہینے تک کسی تنگ و تاریک فلیٹ میں گلتی سڑتی بھی رہے تو پلٹ کر پوچھنے والا بھی کوئی نہیں  کہ آپ  پر کیا گزری۔

حمیرا اصغر کی موت کا دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ اول  اس کے خاندان نے اس کے مردہ جسم بلکہ گلی سڑی لاش کو اپنانے سے انکار کیا اور اگر کسی معاشرتی دبائو یا أولاد کے دبی محبت کی وجہ سے انہوں نے وہ لاش وصول تو کر لی اور اس کے کفن دفن کا بھی انتظام کر دیا مگر یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ایسا انہوں نے کس دل کے ساتھ کیا  ہے۔

والدین کے لئے اپنی زندگی کی کل متاع ان کی أولاد ہوتی ہے۔ فیمنزم اور میرا جسم میری مرضی کی پرچارک آنٹیوں نے نوجوان نسل کو خاندان سے بغاوت اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کے ایسے غلط  راستے پر ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے حمیرا اصغر کے سفید ریش باپ نے اس کے ہاتھوں کتنے درد سہے ہوں گے، کتنی تکالیف برداشت کی ہوں گی اور کتنی بے کسی سے اس سے کنارہ کشی اختیار کی ہو گی کہ میری بیٹی میرا جسم میری مرضی کے جس راستے پر چل پڑی ہے وہ مجھے قبول نہیں۔ ہر حیادار شخص اپنی بیٹی  کو بالخصوص عزت اور حیا کے ساتھ زندگی گزارتے دیکھنا چاہتا ہے۔ فیمینزم کے پرچارک اس کے والدین اور بھائی کے دقیانوسی ہونے پر خوب لعنت ملامت کر رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس باپ اور بھائی نے کتنی کوشش کی ہو گی کہ ان کی بہن بیٹی حیاکی چادر کو سر سے نہ اتارے اور اسلامی و مشرقی روایات کے ساتھ اپنی زندگی گزارے مگر یقینا وہ اسے روشنیوں (درحقیقت اندھیروں ) کی دنیا میں جانے سے روکنے میں ناکام ہوئے ہوں گے اور بالآخر معاملہ قطع تعلق تک پہنچ گیا ہو گا۔

موت کے بعد مردے کی صرف اچھائیاں بیان کرنا نہ صرف ہمارے دین  کی تعلیم ہے بلکہ معاشرتی روایت بھی ہے، ہم بھی اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ مرحومہ پر اپنا فضل و کرم فرمائے اور جو تکلیف اس نے اور اس کی میت نے اس دنیا میں برداشت کی ، اس کے بدلے اسے اپنی رحمتوں سے نوازے مگر تمام نوجوانوں ، مرد و خواتین ، کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ اگر آپ اپنے جسم پر اپنی مرضی کے موجودہ  نظریات کی پیروی کریں گے  اور والدین و معاشرتی روایات اور دینی ہدایات سے بغاوت کریں گے تو پھر معاشرہ آپ کے والدین کو گناہ گار ٹھہرانے میں حق بجانب نہیں  ہو گا کہ جس زندہ جسم پر آپ اپنی مرضی چاہیں ، اس جسم کی موت ہو جائے تو وہ آپ کے والدین یا خاندان کی ذمہ داری ہو۔

Thursday, June 12, 2025


-

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سرمایہ دار اپنا سرمایہ صرف کمپنیوں میں ہی نہیں لگاتا بلکہ سیاستدانوں پر بھی بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ بظاہر تو وہ ایسا وسیع تر قومی مفاد میں کرتا ہے مگر درحقیقت وہ اس سرمایہ کاری سے اپنے سرمایے کو محفوظ بنانے اور مزید سرمایہ حاصل کرنے میں سہولت کاری کی کوشش کرتا ہے۔بھارت میں  نریندرا مودی پر سرمایہ کاری کرنے والے  گوتم ادانی ا ور سجان جندل اور ماضی بعید میں ویرو بھائی امبانی ،  روس میں ولادی میر پیوٹن کی سیاسی مہمات کو فنانس کرنے والے رومان ابراہیموچ ،  جنوبی کوریا  کی صدر پارک گنہے پر سرمایہ کاری کرنے والے سامسنگ گروپ کے مالک  لی جے یانگ ، پاکستان میں عمران خان کی الیکشن مہم پر بے دریغ پیسہ لٹانے والے جہانگیر ترین  اور حال ہی میں امریکی الیکشن پر اثر انداز ہونے والے ٹیسلا اور سپیس ایکس جیسی کمپنیوں کا مالک ایلن مسک  اس کی چند  نمایاں مثالیں ہیں۔
اس قسم کی سرمایہ کاری کو تقریبا تمام دنیا میں عمومی طور پر قبول کیا جاتا ہے تاہم  تصویر کا رخ تب بدلتا ہے جب کوئی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کا ، اس کے خیال کے مطابق "مناسب " بدل حاصل نہیں کر پا تا اور دونوں کے درمیان تعلقات خراب یا پھر ختم ہو جاتے ہیں۔ جنوبی کوریائی سرمایہ دار  لی جے یانگ  کو تو کوئلوں کی اس دلالی میں کئی مرتبہ جیل بھی جانا پڑا  تاہم پاکستان کے جہانگیر ترین اورامریکہ کے  ایلن مسک جیل جانے سے تو بچے رہے تاہم جن پر انہوں نے سرمایہ کاری کی تھی  ان کے ساتھ اختلافات کا منظر پوری دنیا نے دیکھا ہے۔
ایلن مسک نے کھل کر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم چلائی اوردوران مہم یا پھر ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے بعد کئی مرتبہ ایسے اشارے کنائیوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے جس پر کافی لے دے ہوتی رہی ۔ خاص طور ایڈولف ہٹلر کی طرح اپنے ہاتھ کو محسوس انداز میں لہرانا  یا پھر ایک میکانکی آرے کو چلاتے ہوئے یہ اظہار کرنا کہ وہ امریکن بیورکریسی پر اسے چلا رہا ہے  ، پوری دنیا میں بحث کا مرکز بنے رہے۔
ایلن مسک نے ٹویٹر کو خریدنے کے بعد شاید پہلانمایاں کام یہ کیا کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکائونٹ بحال کر دیا جو پرانی انتظامیہ نے پالیسیوں کی خلاف ورزی پر بند کر دیا تھا۔ اسے نے نا صرف ڈیموکریٹس کے خلاف باتیں کیں بلکہ کھلے عام  ریبلکن کو ووٹ دینے کا اعلان کیا۔  وہ ریبلکنز کی فلوریڈا میں ہونے والے ڈونرز کی کانفرنس میں بھی شریک رہا۔ اس  نے ٹویٹر پر(جسے اب ایکس کہا جاتا ہے)دائیں بازو  کے  انفلوئنسرز کے   جو ریبلکنز کو سپورٹ کرتے ہیں ، نا صرف اکائونٹ کھول دیئے  بلکہ ان کو باقاعدہ پروموٹ کرنا شروع کر دیا۔ مسک نے ٹرمپ کے خلاف ہونے والے مواخذے کی کاروائیوں کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کھل کر ٹرمپ کی حمایت کی۔   سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کے اس امیر ترین شخص نے ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم میں 288 ملین ڈالر (81.3 ارب روپے) کی خطیر رقم خرچ کی اور یوں وہ امریکی تاریخ  کے سب سے بڑے سیاسی عطیہ کنندہ کے طور پر سامنے آیا ۔ اس نے نہ صرف خود اتنی خطیر رقم عطیہ کی بلکہ اپنے قریبی دوستوں انتونیو گریژیاث ، جو لونز ڈیل اور شان میگوائر سے بھی بڑے بڑے عطیات دلوائے ۔ حد تو یہ ہے کہ وسکانس کی ایک عدالت  میں ایلن مسک کے خلاف ووٹروں کو 100 ڈالر فی کس رشوت دینے  اور الیکشن کے عمل پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے ایک کیس بھی دائر کر دیا گیا ہے  حلانکہ وہ اس کا اقرار نہیں کرتا۔
 ظاہر ہے ایلن مسک نے یہ سب  ڈونلڈ ٹرمپ کی محبت میں تو نہیں کیا بلکہ لازمی طور پر وہ اپنی کمپنیوں سپیس ایکس، ٹیسلا، ایکس  ، نیورا لنک وغیرہ کے لئے حکومتی مراعات کا امیدوار ہو گا اور بجا طور پر امید رکھتا ہو گا کہ ٹرمپ صدر بننے کے بعد اس کے کاروباری سلطنت کے حوالے سے دوستانہ فیصلے لے گا۔ تاہم یہ حیران کن تھا جب ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اسے نئے قائم شدہ حکومتی محکمے " ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی" کا سربراہ مقرر کر دیا اور یوں وہ ریاستی پالیسیوں میں براہ راست شریک ہو گیا۔  اس نے کم و بیش وہی حیثیت اختیار کر لی جو پاکستان میں کبھی جہانگیر ترین صاحب کو عمران خان کے دور حکومت میں حاصل رہی تھی۔
ایلن مسک اپنی کاروباری سلطنت میں یونین بازی کو پسند نہیں کرتا  اور نہ ہی وہ لیبر قوانین  اور دیگر  حکومتی قواعد و ضوابط کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے جو کاروباری مفادات کے خلاف پڑتے ہوں۔وہ حکومتی بیوروکریسی کے سخت ناقدین میں سے ہے اور چاہتا ہے کہ بڑے حکومتی انفراسٹرکچر کے بجائے سمارٹ حکومتی انفراسٹرکچر قائم ہو۔ وہ  میڈیا پر حکومتی سنسر شپ کا بھی مخالف ہے ۔  ایلن مسک اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X کو سپر ایپ بنانا چاہتا ہے جو  روایتی میڈیا  کا متبادل ہو اور اس بڑھ کر وہ ایک مکمل  پیمنٹ پلیٹ فارم بھی بن جائے۔  وہ  برقی گاڑیوں، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کو اپنے کاروباری مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے  اور یہ سب کرنے کے لئے اسے حکومتی سپورٹ درکار ہے  جس کے حصول کے لئے اس نے ٹرمپ پر کروڑوں ڈالر کی انوسٹمنٹ کی ۔ تاہم اس کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔
کیونکہ اس کے ٹرمپ کے ساتھ اختلافات جلد ہی کھل کر سامنے آنے لگے اور وہ ٹرمپ کے حکومتی نظام سے علیحدہ ہو گیا بلکہ اس نے کھل کر ٹرمپ کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ اس نے X پر حال ہی میں ایک سروے بھی کروایا ہے کہ کیا امریکہ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے علاوہ بھی کوئی سیاسی قوت ہونی چاہیے یا نہیں جس کا 80 فیصد سے زائد نے مثبت جواب دیا ہے۔
بنیادی طور پر ٹرمپ خود ایک بہت بڑی کارباروی سلطنت کا مالک ہے اور کسی بھی طور ایلن مسک کے سامنے دبنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ وہ شخصی تصادم ( (Personality Clashہے  جودونوں شخصیات کے درمیان سیاسی اختلاف کا باعث بن گیا ہے۔  مسک شمسی توانائی کا  حامی اور ماحولیاتی تبدیلی کا وکیل ہے جبکہ ٹرمپ اس کو "بکواس" قرار دیتا ہے۔  مسک ایک آباد کار ہے جو جنوبی افریقہ سے امریکہ ہجرت کر کے آیا جبکہ ٹرمپ آباد کاروں کے حوالے سے سخت پالیسی اپنانا  چاہتا ہے گرچہ خود ٹرمپ کے آبائو اجداد بھی جرمنی سے ہجرت کر کے امریکہ میں آباد ہوئے تھے۔  ایلن مسک کھلی مسابقتی مارکیٹ چاہتا ہے جہاں حکومتی کنٹرول کم از کم ہوں جبکہ ٹرمپ بڑے کاروباروں جیسے ٹیسلا وغیرہ کو امریکہ کی تنزلی کی وجہ سمجھتا ہے اور ان پر مزید ٹیکس عائد کرنا چاہتا ہے۔ مسک کی امریکہ میں تیسری سیاسی قوت قائم کرنے کی وکالت بھی اس کے ٹرمپ کے ساتھ اختلافات کی ایک بنیادی وجہ ہے۔  ایلن مسک کی سیاست سے حالیہ دلچسپی دیکھ کر  یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ وہ امریکہ میں ایک تیسری سیاسی قوت قائم کرنے کی کوشش کرے یا بذات خود ایک تیسری  سیاسی قوت بننے کی کوشش کرے۔ 
تاہم یہ اتنا بھی آسان نہیں اور اس کا احساس ایلن مسک کو بھی ہے اس لئے اس نے ٹرمپ سے اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔  مسک کا سرمایہ اور ٹرمپ کا اقتدار دونوں ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں اس لئے باوجود محتاط ہونے کے ، وہ مصالحت  کی راہ پر گامزن ہیں۔ مسک نے ایک مرتبہ پھر ٹرمپ سے ملاقات کی ہے  جواختلافات کو ختم  کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ٹرمپ نے مسک کی اس کوشش کا خیر مقدم کیا ہے۔ امریکی جہانگیر ترین نے تو ٹرمپ کے ساتھ پیدا ہو جانے والے اختلافات کو جلد ہی بھلانے اور مصالحت  کرنے میں بہتری سمجھی مگر پاکستانی ایلن مسک کے اپنے ٹرمپ کے ساتھ اختلافات شاید اتنے شدید تھے کہ اس میں مصالحت کو کوئی راستہ باقی نہ رہا تھا اور اس نے  اپنے ٹرمپ کو، جو اس وقت مشکل حالات سے دوچار بھی ہے، شاید ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا ہے۔