Search This Blog

Monday, May 27, 2024

(The Ikhwan’s Dilemma) اخوانیوں کا المیہ

 





اخوانیوں کا المیہ

سیاسی اسلام کے کلید برداروں کو دنیا میں بالعموم اخوانیوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ سید محمد قطب شہید،  حسن البنا شہید اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر  سے فیضیاب ہونے والے   اخوانی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند (بشمول سری لنکا) میں انہیں جماعت اسلامی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مشرق بعید میں وہ  ماسیومی اور پان اسلامک تحاریک  جبکہ افریقہ اور عرب دنیا میں اخوان المسلمین کے نام سے معروف ہیں ۔  ترکیہ میں  ان ہی کا ایک آف شوٹ   آک پارٹی کے نام سے گزشتہ 20سال سے  برس اقتدار ہے ۔ ایران کا  اسلامی انقلاب گو کہ  اخوانی نہیں بلکہ سنی بھی نہیں مگر اس  کے ساتھ اخوانیوں  کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں ۔ اخوانی  بجا طور پر اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ تقریباً  تما م ہی اسلامی ممالک میں  نہ صرف وہ موجود ہیں بلکہ ان کے وجود کو محسوس بھی کیا جاتا ہے ۔

مگر اخوانیوں  کا المیہ یہ ہے کہ وہ ، ترکیہ کے استشناء کے ساتھ، دنیا کے کسی بھی ملک میں کامیابی سے اقتدار حاصل نہیں کر سکے، اور اگر حاصل کیا ہے تو اسے برقرار نہیں رکھ سکے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ کم و بیش ہر جگہ پر وہ بے رحم حاکموں  اور ریاستی طاقتوں  کا تختہ مشق بنے رہے ہیں بلکہ بنے ہوئے ہیں مگر  اخوان قیادت اپنے  بے گناہ   اخوانیوں کی جان و مال کی حفاظت کی کوئی تدبیر نہیں کر سکی ۔ اخوانی اپنی تحریر و تقریر میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رول ماڈل گردانتے  ہیں ۔ ہم اگر محمد عربی  کی تحریک   کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان  کی تحریک کا اٹھا ہوا ہر قدم اسے  ملکی اقتدار کے قریب لے گیا اور بالآخر انہوں نے صرف ایک ملک پر نہیں بلکہ دنیا کے طول و عرض میں اپنے رب کا اقتدار قائم کر دیا اور وہ بھی ۲۰ – ۲۵ سال کے مختصر وقت میں جبکہ   اخوانی مختلف علاقوں میں  عشروں سے  سرگرم عمل  ہیں مگر انہیں  اقتدار پر گرفت  تو کیا حاصل ہو، وہ ہر  جگہ ایک نہ ختم ہونے والے ظلم و تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔

غزہ اس کی اندوہناک  ترین مثال ہے۔غزہ کے اخوانی جو حماس کے نام سے جانے جاتے ہیں، تمام  فلسطینیوں کے نمائندہ بھی نہیں۔ اسرائیلی قبضے سے بچ جانے والے فلسطین کے  اکثریتی علاقے (ویسٹ بینک ) پر  یاسر عرفات کی سیکولر پارٹی الفتح کی حکمرانی ہے جبکہ حماس کا کنٹرول صرف غزہ کی پٹی پر ہے اور اسی  پٹی ہر دوسرے سال اسرائیلی فورسز  آگ و خون کا بازار گرم کر دیتی ہیں۔ بظاہر حماس وغیرہ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں عاجز نظر آتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں عام فلسطینی  آج بھی موت کا سامنا کررہے ہیں۔  حیرت اس بات ہوتی ہی کہ اگر حماس جنگ کی طاقت نہیں رکھتی تو  کیا محمد عربی کی سیرت سے ہمیں یہ سبق نہیں ملتا کہ خفیہ دعوت کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے، ہجرت کر کے کسی دوسری سرزمین پر اقتدار قائم کیا جائے یا کسی کے ساتھ اشتراک کا معاملے کیا جائے اور معقول طاقت حاصل کرنے کے بعد مقابلے میں اترا جائے ، پھر  چاہے وقت کی سپر پاور ہی مدمقابل کیوں نہ ہو، جم کے مقابلہ کیا جائے۔   مگر غزہ میں ہزاروں بے گناہ شہید  و زخمی ہوتے رہتے ہیں مگر حماس اس  معاملے کو سلجھانے سے قاصر نظر  آتی ہے۔

یہ صرف غزہ تک محدود نہیں۔ اس سے پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کشمیر میں جماعت اسلامی نے اپنے کارکنان کو ایک  ایسی جنگ میں اتارا جہاں انہیں صرف دشمن کے خلاف نہیں ، اپنے لوگوں کے خلاف  بھی جنگ  لڑنا   پڑی۔ برصغیر کے اخوانیوں  (جماعت اسلامی)نے  اپنے کارکنان کوتنخواہ دار فوجیوں کے لئے ڈھال بنا کر پیش کیا۔ جس کام کے لئے کھربوں کا بجٹ استعمال کرنے والی فوج رکھی ہوئی ہے، وہ ان اخوانیوں نے اپنے کارکنان سے کروانے کی کوشش کی۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں  ہلاک ہونے والے  ہزاروں بے گناہ اخوانیوں کا خون  یہاں کی اخوان قیادت کے ہاتھوں پر ہے جبکہ کشمیر میں تاحال صورت حال ویسی ہی ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش  بن چکا مگر 50 سال بعد آج بھی وہاں کے اخوانی  اپنی قیادت کے صحیح یا غلط فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں ۔

یہ صرف جماعت اسلامی پاکستان  نے  ہی نہیں کیا۔ مصر میں پہلے انوارالسادات، پھر حسنی مبارک اور اب عبدالفتح السیسی  کی ریاستی طاقت کے سامنے ایک عام اخوانی کو کھڑا کروا نے کی کوشش کی گئی۔ اخوان قیادت نے خود بھی ریاستی جبر کا سامنا کیا اور اپنے کارکن کو بھی  موت و   قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔مصریوں نے تو انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا بھی دیا تھا،  مگر اخوانی اقتدار پر اپنی گرفت برقرار نہ رکھ سکے۔ مصری اخوانیوں نے  کیسی  حکمت عملی   اختیار کی کہ اقتدار تو چھن  ہی گیا مگر ان کے ہزاروں بے گناہ کارکنان موت سے ہمکنار کر دیئے گئے یا قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہیں؟

معاملہ صرف مصر تک ہی محدود نہیں۔ شام میں پہلے حافظ الاسد نے اور پھر اس کے بیٹے  بشار الاسد نے بے گناہ  اخوانیوں کا بھیڑ بکریوں کی طرح قتل عام کیا۔ماضی قریب میں،بشار الاسد نے  حومص شہر کو ، جو اخوانیوں کا مرکز تھا، ملیا میٹ کر کے رکھ دیا اور لاکھوں بے گناہ شامی اخوانیوں کو  قتل کیا جبکہ ہزاروں اب بھی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے  ہیں۔ 

شام ،مصر ، پاکستان  اور غزہ  ہی نہیں، اس سے پہلے الجزائر(الجیریا)  میں کم و بیش یہی صورت حال پیش آئی۔ 1991 کے قومی و بلدیاتی   الیکشن تو اخوانی جیت گئے تھے  مگر بوجوہ  اقتدار حاصل نہ کر سکے ۔انہوں نے  اپنی دانست میں معقول فیصلہ کرتے ہوئے،  اسلامک سالویشن آرمی بنائی اور 10 سال تک ریاست پر قابض فوجیوں کے خلاف لڑتے رہے جس میں لاکھوں  کی تعداد  میں عام  الجزائری  بھی ہلاک ہوئے  اور اخوانی بھی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ الجزائر کےمنظر نامے پربظاہر  اب اخوانیوں کا کوئی وجود باقی نہیں۔

سوڈان میں بھی یہی صورت حال رہی۔  اخوانی اقتدار تک  تو پہنچ گئے مگر حیران کن طور پر اپنے ہی مقرر کردہ حاکم عمر البشیر کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہو گئے اور ایک سابق اخوانی ہونے کے باوجود بھی عمر البشیر نے ریاستی قوت کو اخوانیوں کے خلاف استعمال کرنے میں کسی بخل سے بالکل بھی کام نہیں لیا۔

کہنے کا مقصد  یہ بالکل بھی نہیں کہ اخوانیوں کو ان جابر حکمرانوں کی کاسہء لیسی کرنی چاہئے تھی اور اپنی جان بچانی چاہیے تھی،  بلکہ کہنا  یہ ہے کہ اخوانی قیادت نے کہیں پر بھی  اپنی طاقت کو  کیپٹلائز نہیں کیا، کوئی واضح ہدف مقرر کر کے اس تک پہنچنے کی مربوط منصوبہ بندی نہیں کی، اپنے کارکن کو ریاستی جبر کا مقابلہ حکمت سے کرنے   اور اپنی طاقت کو محفوظ رکھ کر صحیح وقت پر صحیح انداز میں استعمال کرنے کا طریقہ نہیں سکھایا، افغانستان کے دیوبندی طالب کی طرح وقت کی سپر پاور سے اقتدار  چھیننے کا گر  نہیں سکھایا ،  ترکیہ کے سابق اخوانیوں کی طرح حکمت کے ساتھ ریاست پر کنٹرول حاصل کرنا نہیں سکھایا  بلکہ  اپنے   عام کارکن کو مجاہد بنا کر، اسے شہادت اور جنت کی بشارتیں سنا سنا کر ،  بغیر کسی تیاری کے ریاست کے مقابل کھڑا کر کے اسے  ناحق موت سے دوچار کیا ہے۔

 اخوانی نہ تو اپنے ترک بھائیوں سے کوئی سبق سیکھنے کے لئے تیار ہیں  کہ پرامن طریقے سے اقتدار کیسے حاصل کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہوں نے افغانستان کے سکہ بند دیوبندیوں سے کوئی سبق حاصل کیا ہے کہ ملٹری/گوریلا  طاقت کو کیسے اقتدار حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment