Search This Blog

Thursday, May 30, 2024

MANUFACTURING FAULT - بنیادی نقص

 

جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر انجنیئر حافظ نعیم الرحمن صاحب اس وقت ملک میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے غزہ ملین مارچز سے خطاب کر رہے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے پشاور میں پورے صوبہ خیبر پختونخوا سے جمع ہونے والے جماعت اسلامی   کے کارکنان کے غزہ مارچ سے خطاب کیا  ہے۔ نتائج اور اثر پذیری سے قطع نظر، فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف پاکستان میں بلند ہونے والی شاید  واحد آواز جماعت اسلامی یا اس کی ذیلی تنظیموں کی ہی ہے۔یہ بھی جماعت اسلامی کی ہی خاصہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو اثر انداز کرنے والے کسی بھی مسئلے  پر سب سے توانا آواز یہی  جماعت بلند کرتی ہے مگر یہ حیرت ناک  امر ہے کہ مقامی مسائل پر ، جو پاکستان کے عوام کو  براہ راست متاثر کرتے ہیں، جماعت اسلامی کی  آواز و لب و لہجہ اتنا پر اثر نہیں ہوتا جو بین الاقوامی معاملات پر ہوتا ہے۔ اس کا لازمی  نتیجہ جماعت اسلامی کو عام انتخابات میں  عمومی ناکامی کی صورت میں کرنا پڑتا ہے ۔ اپنا ایک بین الاقوامی وجود ثابت کروانے والی جماعت کو پاکستانی عوام کسی مقامی سطح کی  نمائندگی کا حقدار نہیں سمجھتے۔ ماضی بعید  میں ملکی سطح پر جماعت اسلامی ایک مٔوثر  پریشر گروپ رہی ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس کے اکا دکا نمائندے نظر آتے رہے ہیں  مگر موجودہ وقت میں ملکی سطح پر نہ تو اس کا دبائو کہیں محسوس کیا جارہا ہے    اور نہ ہی پارلیمان  میں اس کی  کوئی نمائندگی موجود ہے۔

حافظ نعیم الرحمان صاحب نے جب اپنی عملی سیاست  کا آغاز کراچی سے کیا تو  لوگوں نے انہیں کبھی  کے الیکٹرک کی پالیسیوں پر تنقید کرتے دیکھا اور کبھی وہ  بحریہ ٹائون اور کراچی واٹر بورڈ کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دئیے۔ کبھی وہ کراچی  میں ہر سو پھیلی گندگی پر کراچی بلدیہ  کو آڑے ہاتھوں لیتے نظر آئے اور کبھی وہ بااختیار بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لئے سندھ اسمبلی کے باہر اور عدالتوں لے اندر گرجتے برستے نظر آئے ۔ وہ جس بھی معاملے پر بولے، خوب بولے اور ان کی آواز نہ صرف مقتدر حلقوں میں سنی گئی بلکہ عوام میں بھی ان کا بیانیہ مقبولیت حاصل کرتا گیا  ۔اس کا عملی نتیجہ کراچی کے بلدیاتی اور پھر عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی عام مقبولیت  کی صورت میں سامنے آیا اور ریاست و ریاست کی اداروں نے جماعت اسلامی کو کراچی کا ایک مئوثر سٹیک ہولڈر تسلیم بھی کیا۔

شاید حافظ نعیم الرحمن صاحب کی کراچی میں مقبولیت کا ہی اثر تھا کہ جماعت اسلامی کے ممبران نے انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کر لیا۔ مگر حیران کن   طور پر پورے ملک کے امیر بننے کے بعد وہ  بجلی و گیس کی ناقابل برداشت قیمتوں اور لوڈ شیڈنگ، مہنگائی و بے روزگاری ،حکومت کی مزدور کش پالیسیوں اور دیگر عوامی نوعیت کے مسائل پر ڈھیلی ڈھالی پریس کانفرنسز تو کرتے نظر آ رہے ہیں ، مگر ملین مارچ  انہوں نے غزہ جیسے بین الاقوامی معاملات پر کرنا مناسب سمجھا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ پشاور کے غزہ مارچ میں وہ  64 لاکھ آبادی کے شہر پشاور میں وہ  چند ہزار لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور وہ بھی پورے صوبہ خیبر پختونخوا سے ۔  حاضری سے  آشکار ہے کہ پشاور کے  عام شہری کی غزہ ملین مارچ  سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی   گرچہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر وہ بھی اتنا ہی دکھی ہے جتنا کہ جماعت اسلامی کا کوئی کارکن۔

یہ  ناقابل فہم نہیں کہ پشاور میں جمع ہو کر نعرے بلند کرنے والے ایک لاکھ افراد کے مقابلے میں یوگنڈا و موزمبیق   وغیرہ جیسے ناقابل ذکر ممالک میں تعینات حکومت پاکستان کے ایک سرکاری نوکر یعنی کسی سفیر وغیرہ  کے جاری کردہ پریس نوٹ  کی زیادہ اہمیت ہے تو پھر جماعت اسلامی کی ترجیح پشاور میں ایک لاکھ افراد کو جمع کرنے کے بجائے حکومت پاکستان کے تمام سفیروں پر  اور تمام مشینری پر کنٹرول حاصل کرنا کیوں نہیں، یہ یقیناً ناقابل فہم ہے۔

جماعت اسلامی کی قیادت سے یہ بات  ڈھکی چھپی نہیں ہو سکتی  کہ پارلیمان کے بالا اور زیریں ایونوں کے سینکڑوں ارکان کی موجودگی میں اس کے صرف ایک سینٹر مشتاق احمد خان صاحب کی  نہ صرف بات کو  پورے پاکستان میں سنا اور محسوس کیا جاتا تھا  بلکہ وہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ  امریکہ و مصر  و لبنان وغیرہ جا کر جماعت اسلامی کی کوششوں کے لئے سرکاری  مشینری کی سپورٹ بھی فراہم کرتے رہے۔ان کی سینٹ سے رکنیت کے خاتمے کے بعد اب جماعت اسلامی کو وہ ایڈوانٹج حاصل نہیں رہا۔ تو پھر جماعت اسلامی ایسی  حکمت عملی کیوں نہیں اپناتی کہ پارلیمان کے بالا و زیریں ایوانوں میں  اس کے کئی مشتاق احمد خان ہوں اور پوری  دنیا میں ان کی گھن گرج بھی سنائی دے اور ریاستی مشینری بھی ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہو۔

 ایسا صرف تب ہی ممکن ہو سکتا ہے  جب جماعت اسلامی کو عوامی مقبولیت کا کندھا حاصل ہو اور وہ پارلیمان میں پہنچ کر نہ صرف اپنے بین الاقوامی ایجنڈے کی پیروی کر سکے بلکہ ملک کے اندر بھی اس کی سنی جائے اور اس کے وجود کو محسوس کیا جا سکے۔  

عوامی مقبولیت کا حصول  بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔ آپ عوام کی بولی عوام کے الفاظ میں بولیں تو عوام آپ کو اپنی سر آنکھوں پر بٹھانے کےلئے تیار ہوں گے اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر آپ ملکی و بین الاقوامی معاملات میں ذیادہ مئوثر کردار ادا کر سکیں گے۔ عوامی مقبولیت کے حصول کے لئے جماعت اسلامی کو اپنے بین الاقوامی ایجنڈے کو  فی الحال ثانوی حیثیت  پر رکھنا ہو گا اور  اولین ترجیح   ان معاملات کو دینی ہو گی جو عوام کو براہ راست متاثر کر رہے۔ دوسرے الفاظ میں ،یہ معاملات عوام کی دکھتی رگ ہیں اور ان پر ہاتھ رکھنے والا کوئی بھی نبض شناس ،  عوام کی مجموعی  سپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔ 

یہ مانا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کی  سرگرمیوں کی سمت جماعت اسلامی کی شوریٰ طے کرتی ہے  اور جماعت اسلامی کا امیر بھی جماعت کی شوریٰ کی طے کردہ سمت میں ہی  چلتا ہے  یا  چلنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر چہ جماعت اسلامی  کی شوریٰ میں موجود  اکثر افراد متوسط طبقے کے عوام میں  سے ہوتے ہیں مگر یہ ایک لاینحل سوال ہے کہ وہ عوام کی طرح سوچنے سے قاصر کیوں ہوتے ہیں ۔ ان کی سوچ ایک خاص دائرے سے باہر نکلنے اور عام عوام کی سطح  پر آنے سے کیوں  منکر ہوتی ہے۔ ان صاحبان کے لئے امریکہ  و روس کی پالیسیوں  پر مباحثہ کرنا، برطانوی و ہندی  تعلقات کے مسلمانوں  پر متوقع اثرات کا جائزہ لینا، چین کے   افریقہ میں بڑھتے اثرات  میں افریقہ کی مسلمان ریاستوں کی ترجیحات   پر غور و  فکر کرنا یا کم از کم  پان اسلامز م کی تحاریک  اور مسلمہ امہ   کے رد عمل  پر اظہار رائے کرنا  آسان معلوم ہوتا ہے مگر ان  کےلئے ایک ریڑھی بان کا بجلی  و گیس کا  بل، مزدور کے بچے کی سکول کی فیس و کتابیں،  کسی دیہاڑی دار کے علاج معالجے کے خرچ   کی فکر یا کسی عام پاکستانی  کا ریاستی و غیر ریاستی دہشتگردی  کے خطرات سے دوچار ہونا  شاید  نسبتاً غیر اہم  ہوتا ہے اور وہ ایسے معاملات کو اپنی بحث کا مرکز بنانا مناسب نہیں سمجھتے۔ اس کی واحد قابل فہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شوریٰ کے ارکان کی اکثریت عوامی لوگ نہیں ہوتے۔ نہ ہی انہوں نے عوامی سطح پر سیاست کی ہوتی ہے اور نہ عوام کے تھانہ کچہری کے مسائل کے حل کے لئے کوئی دوڑ دھوپ جبکہ جماعت اسلامی میں فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس ہے۔  ایسی صورت حال میں مستقبل قریب میں بھی ایسا ممکن نہیں  دکھائی دیتا کہ جماعت اسلامی کی شوریٰ کا کوئی عوام مزاج  اپنانے کا امکان ہو۔  یہ وہ بنیادی نقص ہے جو جماعت اسلامی کو ایک مقبول عام سیاسی جماعت  نہیں بننے دیتا اور جماعت اسلامی اپنی تمام تر نیک نامی، اپنے کارکن کے خلوص نیت  اور انتھک محنت کے باوجود ملکی سطح کی پہلی پانچ جماعت میں بھی اپنی جگہ بنانے سے قاصر ہے۔

ایسے میں  کراچی کے عوامی مسائل کو گھر و حجرے سے نکال کر چوک و چوراہے اور ایوان و عدالت تک پہنچانے والے حافظ نعیم الرحمان صاحب کو ہی کچھ پیش قدمی کرنی ہو گی اور   موجودہ حالات اور تحریک انصاف کی ٹوٹ پھوٹ  کی شکل میں پیدا ہونے والے متوقع خلا  کو پر کرنے کے لئے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو بین الاقوامی سے  کم کرکے مقامی سطح پر لانا ہو گا۔  فارم 47  اور  45 کا معاملہ بھی اہم ہے مگر آئی پی پیز سے کئے گئے ناروا معاہدے، بجلی و گیس کے ہوشربا بل، مہنگائی  اور بیروزگاری کا  طوفان  اور ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت ، جسے ریاستی سرپرستی حاصل ہے،  وہ سلگتے مسائل ہیں جن پر بات سننے کے لئے لوگوں کے کان ترس رہے ہیں۔ لوگ اس  مسیحا کے انتظار میں ہیں جو آئے اور سرمایہ داروں  و جاگیرداروں اور سرکاری اہلکاروں (فوجی و سویلین ) کی تکون کی طرف سے  معاشرے کی رگوں میں گھول دئیے گئے  زہر کا تریاق پیش کرے۔

آپ نے مہینہ بھر کی کوشش ، اپنی جماعت اور اپنے کارکن کے لاکھوں کے وسائل کے  استعمال  اور  اپنی پوری صوبے کی تنظیم کو استعمال کر کے پشاور میں چند ہزار افراد  جمع کئے مگر میں آپ کو  یقین دلاتا ہوں کہ آپ مہنگائی و بے روزگاری یا بجلی  و گیس کے بلوں  کے خلاف جلسے کے لئے صرف وقت اور مقام کا اعلان کریں اور پھر دیکھیں کہ لاکھوں لوگ اپنے خرچ پر جمع ہوتے ہیں یا نہیں۔ ان لاکھوں لوگوں کے سامنے غزہ کے مظلوموں کے لئے آواز بلند کرنے، مسلم امہ    کام مقدمہ پیش کرنے یا کشمیر  و عراق و شام  کا ذکر کرنے پر ہر گز کوئی پابندی نہیں ہو گی، مگر مرکزی نقطہ عوامی مسائل  ہی رہے تو   تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر آپ عوام کے سامنے ہوں گے۔ آپ عوامی مسائل پر بھی ایک ملین مارچ کر کے دیکھیں ، آپ مارچ لے کر اسلام آباد جائیں گے تو یقین رکھیں عوام آپ کو ڈی چوک پر نہیں چھوڑیں  گے بلکہ اس کے سامنے موجود سفید رنگ کی عمارت کے اندر پہنچا دیں گے۔ ایسے میں  ریاستی وسائل ، ادارے  اور  افراد آپ کی  طرف  انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکیں گے بلکہ  ایک پالتو  کتے کی طرح آپ کے آگے پیچھے دم ہلاتے پھریں گے ۔ تب آپ  کے پاس موقع بھی ہوگا، وسائل بھی ہوں گے اور اختیار بھی ہو گا کہ مقامی کے ساتھ ساتھ اپنے بین الاقوامی ایجنڈے  کی بھی پیروی کرتے رہیں۔

No comments:

Post a Comment