Search This Blog

Thursday, July 4, 2024

فنکاروں کی کسمپرسی


اکثر و بیشتر نظر سے ان معروف خواتین و حضرات کی انتہائی بے چارگی والی تصاویر گزرتی رہتی ہیں جو فلم یا ٹی وی وغیرہ سے وابستہ رہے ہوتے ہیں۔ آج ہی معروف ادکار خواجہ سلیم کی تصویر دیکھ کر انتہائی دکھ محسوس ہوا کہ خواجہ صاحب مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مشکل مالی حالات ہر انسان پر آ سکتے ہیں مگر شو بز سے وابستہ افراد کے بارے میں اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنے کیرئیر کے اختتام کے دنوں میں انہیں
 دگر گوں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر انہیں کسی بیماری کا سامنا کرنا پڑ جائے تو وہ علاج کے لئے  حکومت اور مخیر حضرات سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں ۔ کچھ دردمند دل رکھنے والے ان کی مدد بھی کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ لائم لائٹ میں رہنے والے، کیمرہ اور روشنیوں کے سامنے اپنی زندگی بسر کرنے والے ، اور بظاہر ایک خوشحال زندگی گزارنے والے ان افراد کے ساتھ ایسا کیا المیہ ہوتا ہے کہ وہ  کیرئیر گزرنے کے بعد اپنا علاج معالجہ تک کروانے سے قاصر رہتے ہیں۔

اس صورتحال سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم ایک ناکام ریاست کے باسی ہیں جو اپنے معروف لوگوں کا  بھی خیال رکھنے سے قاصر  ہے تو عام افراد اس ریاست سے کیا گلہ کریں وہیں یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بظاہر روشن نظر آنے والی فلم و ٹی وی کی دنیا  درحقیقت کتنی اندھیری ہے۔ نہ صرف یہ کہ اتنی بڑی ادکار و فنکار کی کمیونٹی اپنے محروم اور  مدد کے منتظر لوگوں کی مدد کرنے کے لئے کوئی  تنظیم یا اجتماعیت نہیں رکھتی بلکہ  انہیں شاید اس کا احساس بھی نہیں کہ ان کی طرح کا فرد جو کل پردہ سیمیں پر جلوہ افروز تھا آج کس کسمپرسی کی حالت سے گزر رہا ہے  اور ، اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو، مگر کل وہ بھی اسی طرح کے حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ایک اور   نتیجہ جو اس صورتحال سے ایک عام آدمی نکال سکتا ہے وہ یہ ہے کہ بظاہر شاندار نظر آنے والی شو بز کی دنیا میں ہر فرد لاکھوں اور کروڑوں پتی نہیں بلکہ یہ دنیا اپنی  بہت بڑی تعداد  کو صرف دو وقت کی روٹی روزی ہی  فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ہر فرد لاکھوں میں کما رہا ہوتا تو یقیناً وہ  کچھ پس انداز بھی کرتا  ، کہیں سرمایہ کاری وغیرہ کرتا اور کیرئیر کے اختتام ہو جانے کے بعد کسی کی محتاجی سے بچا رہتا۔

ناکام ریاست کی بڑی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ  وہ اپنے محروم کو نہ تو انصاف دے سکتی ہے ، نہ سیکیورٹی اور نہ ہی باعزت روزی اور روزگار۔

آج سے چودہ سو سال پہلے کی مدینہ کی  اسلامی ریاست نہ صرف  مسلمان کو بلکہ اپنے ہر بوڑھے، معذور  کو، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، پنشن ادا کرتی تھی جبکہ بچوں تک کو وظیفہ دیا جاتا تھا۔ یہ کردار اب مسلم ریاست سے نکل کر یورپ اور امریکہ کہ غیر مسلم ریاستوں نے اختیار کر لیا ہے کہ ان کا ہر خاص و عام، کالا اور گورا، پنشن اور وظائف پاتا ہے۔ حضرت عمر کے دور کے اس غیر مسلم ضعیف  کے بارے میں تو سنا ہو گا جو بھیک مانگ رہا تھا۔ جب استفسار پر حضرت عمر کو بتایا گیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اسے نہ تو زکو   ٰۃ دی جا سکتی ہی اور نہ ہی اس کا وظیفہ مقرر ہے تو حضرت عمر نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کی جوانی میں ہم ان سے جزیہ کی وصولی کی صورت میں فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں انہیں حالات کے رحم  و کرم پر چھوڑ دیں۔ انہوں نے اسی وقت تمام غیر مسلم بوڑھوں کی فہرستیں مرتب کروائیں اور انہیں پنشن جاری کی جو تادم مرگ انہیں ملتی رہتی۔  یہ ایک کامیاب ریاست کا ماڈل ہے جو اپنے محروم شہری کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے۔کامیاب ریاست مزید کامیاب ریاستوں کو جنم دیتی ہے جبکہ  ناکام ریاستوں میں وسائل کا دھارا اس کے حکمرانوں اور باوسائل لوگوں کی طرف مڑا ہوتا ہے۔ ایسی ریاست بالآخر تاریخ کے صفحات میں دفن ہو جایا کرتی ہے۔ پاکستان میں  بااختیار  افراد  اور حکمرانوں کے لئے  وسائل کی کوئی کمی نہیں بلکہ وہ  ہن دولت سے لتھڑے پڑے ہیں جبکہ خواجہ سلیم صاحب جیسے سفید پوش افراد حالات کے جبر کا شکار ہیں اور اپنی محرومیوں کے حل کے لئے اس اندھی  و بہری حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں جو اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کو دیکھ نہیں سکتی اور اپنے علاوہ کسی اور کے دکھ کو سننے کی  صلاحیت سے محروم ہے۔ 

No comments:

Post a Comment