Search This Blog

Thursday, July 4, 2024

فنکاروں کی کسمپرسی


اکثر و بیشتر نظر سے ان معروف خواتین و حضرات کی انتہائی بے چارگی والی تصاویر گزرتی رہتی ہیں جو فلم یا ٹی وی وغیرہ سے وابستہ رہے ہوتے ہیں۔ آج ہی معروف ادکار خواجہ سلیم کی تصویر دیکھ کر انتہائی دکھ محسوس ہوا کہ خواجہ صاحب مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مشکل مالی حالات ہر انسان پر آ سکتے ہیں مگر شو بز سے وابستہ افراد کے بارے میں اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنے کیرئیر کے اختتام کے دنوں میں انہیں
 دگر گوں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر انہیں کسی بیماری کا سامنا کرنا پڑ جائے تو وہ علاج کے لئے  حکومت اور مخیر حضرات سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں ۔ کچھ دردمند دل رکھنے والے ان کی مدد بھی کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ لائم لائٹ میں رہنے والے، کیمرہ اور روشنیوں کے سامنے اپنی زندگی بسر کرنے والے ، اور بظاہر ایک خوشحال زندگی گزارنے والے ان افراد کے ساتھ ایسا کیا المیہ ہوتا ہے کہ وہ  کیرئیر گزرنے کے بعد اپنا علاج معالجہ تک کروانے سے قاصر رہتے ہیں۔

اس صورتحال سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم ایک ناکام ریاست کے باسی ہیں جو اپنے معروف لوگوں کا  بھی خیال رکھنے سے قاصر  ہے تو عام افراد اس ریاست سے کیا گلہ کریں وہیں یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بظاہر روشن نظر آنے والی فلم و ٹی وی کی دنیا  درحقیقت کتنی اندھیری ہے۔ نہ صرف یہ کہ اتنی بڑی ادکار و فنکار کی کمیونٹی اپنے محروم اور  مدد کے منتظر لوگوں کی مدد کرنے کے لئے کوئی  تنظیم یا اجتماعیت نہیں رکھتی بلکہ  انہیں شاید اس کا احساس بھی نہیں کہ ان کی طرح کا فرد جو کل پردہ سیمیں پر جلوہ افروز تھا آج کس کسمپرسی کی حالت سے گزر رہا ہے  اور ، اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو، مگر کل وہ بھی اسی طرح کے حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ایک اور   نتیجہ جو اس صورتحال سے ایک عام آدمی نکال سکتا ہے وہ یہ ہے کہ بظاہر شاندار نظر آنے والی شو بز کی دنیا میں ہر فرد لاکھوں اور کروڑوں پتی نہیں بلکہ یہ دنیا اپنی  بہت بڑی تعداد  کو صرف دو وقت کی روٹی روزی ہی  فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ہر فرد لاکھوں میں کما رہا ہوتا تو یقیناً وہ  کچھ پس انداز بھی کرتا  ، کہیں سرمایہ کاری وغیرہ کرتا اور کیرئیر کے اختتام ہو جانے کے بعد کسی کی محتاجی سے بچا رہتا۔

ناکام ریاست کی بڑی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ  وہ اپنے محروم کو نہ تو انصاف دے سکتی ہے ، نہ سیکیورٹی اور نہ ہی باعزت روزی اور روزگار۔

آج سے چودہ سو سال پہلے کی مدینہ کی  اسلامی ریاست نہ صرف  مسلمان کو بلکہ اپنے ہر بوڑھے، معذور  کو، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، پنشن ادا کرتی تھی جبکہ بچوں تک کو وظیفہ دیا جاتا تھا۔ یہ کردار اب مسلم ریاست سے نکل کر یورپ اور امریکہ کہ غیر مسلم ریاستوں نے اختیار کر لیا ہے کہ ان کا ہر خاص و عام، کالا اور گورا، پنشن اور وظائف پاتا ہے۔ حضرت عمر کے دور کے اس غیر مسلم ضعیف  کے بارے میں تو سنا ہو گا جو بھیک مانگ رہا تھا۔ جب استفسار پر حضرت عمر کو بتایا گیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اسے نہ تو زکو   ٰۃ دی جا سکتی ہی اور نہ ہی اس کا وظیفہ مقرر ہے تو حضرت عمر نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کی جوانی میں ہم ان سے جزیہ کی وصولی کی صورت میں فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں انہیں حالات کے رحم  و کرم پر چھوڑ دیں۔ انہوں نے اسی وقت تمام غیر مسلم بوڑھوں کی فہرستیں مرتب کروائیں اور انہیں پنشن جاری کی جو تادم مرگ انہیں ملتی رہتی۔  یہ ایک کامیاب ریاست کا ماڈل ہے جو اپنے محروم شہری کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے۔کامیاب ریاست مزید کامیاب ریاستوں کو جنم دیتی ہے جبکہ  ناکام ریاستوں میں وسائل کا دھارا اس کے حکمرانوں اور باوسائل لوگوں کی طرف مڑا ہوتا ہے۔ ایسی ریاست بالآخر تاریخ کے صفحات میں دفن ہو جایا کرتی ہے۔ پاکستان میں  بااختیار  افراد  اور حکمرانوں کے لئے  وسائل کی کوئی کمی نہیں بلکہ وہ  ہن دولت سے لتھڑے پڑے ہیں جبکہ خواجہ سلیم صاحب جیسے سفید پوش افراد حالات کے جبر کا شکار ہیں اور اپنی محرومیوں کے حل کے لئے اس اندھی  و بہری حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں جو اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کو دیکھ نہیں سکتی اور اپنے علاوہ کسی اور کے دکھ کو سننے کی  صلاحیت سے محروم ہے۔ 

Thursday, May 30, 2024

MANUFACTURING FAULT - بنیادی نقص

 

جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر انجنیئر حافظ نعیم الرحمن صاحب اس وقت ملک میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے غزہ ملین مارچز سے خطاب کر رہے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے پشاور میں پورے صوبہ خیبر پختونخوا سے جمع ہونے والے جماعت اسلامی   کے کارکنان کے غزہ مارچ سے خطاب کیا  ہے۔ نتائج اور اثر پذیری سے قطع نظر، فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف پاکستان میں بلند ہونے والی شاید  واحد آواز جماعت اسلامی یا اس کی ذیلی تنظیموں کی ہی ہے۔یہ بھی جماعت اسلامی کی ہی خاصہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو اثر انداز کرنے والے کسی بھی مسئلے  پر سب سے توانا آواز یہی  جماعت بلند کرتی ہے مگر یہ حیرت ناک  امر ہے کہ مقامی مسائل پر ، جو پاکستان کے عوام کو  براہ راست متاثر کرتے ہیں، جماعت اسلامی کی  آواز و لب و لہجہ اتنا پر اثر نہیں ہوتا جو بین الاقوامی معاملات پر ہوتا ہے۔ اس کا لازمی  نتیجہ جماعت اسلامی کو عام انتخابات میں  عمومی ناکامی کی صورت میں کرنا پڑتا ہے ۔ اپنا ایک بین الاقوامی وجود ثابت کروانے والی جماعت کو پاکستانی عوام کسی مقامی سطح کی  نمائندگی کا حقدار نہیں سمجھتے۔ ماضی بعید  میں ملکی سطح پر جماعت اسلامی ایک مٔوثر  پریشر گروپ رہی ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس کے اکا دکا نمائندے نظر آتے رہے ہیں  مگر موجودہ وقت میں ملکی سطح پر نہ تو اس کا دبائو کہیں محسوس کیا جارہا ہے    اور نہ ہی پارلیمان  میں اس کی  کوئی نمائندگی موجود ہے۔

حافظ نعیم الرحمان صاحب نے جب اپنی عملی سیاست  کا آغاز کراچی سے کیا تو  لوگوں نے انہیں کبھی  کے الیکٹرک کی پالیسیوں پر تنقید کرتے دیکھا اور کبھی وہ  بحریہ ٹائون اور کراچی واٹر بورڈ کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دئیے۔ کبھی وہ کراچی  میں ہر سو پھیلی گندگی پر کراچی بلدیہ  کو آڑے ہاتھوں لیتے نظر آئے اور کبھی وہ بااختیار بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لئے سندھ اسمبلی کے باہر اور عدالتوں لے اندر گرجتے برستے نظر آئے ۔ وہ جس بھی معاملے پر بولے، خوب بولے اور ان کی آواز نہ صرف مقتدر حلقوں میں سنی گئی بلکہ عوام میں بھی ان کا بیانیہ مقبولیت حاصل کرتا گیا  ۔اس کا عملی نتیجہ کراچی کے بلدیاتی اور پھر عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی عام مقبولیت  کی صورت میں سامنے آیا اور ریاست و ریاست کی اداروں نے جماعت اسلامی کو کراچی کا ایک مئوثر سٹیک ہولڈر تسلیم بھی کیا۔

شاید حافظ نعیم الرحمن صاحب کی کراچی میں مقبولیت کا ہی اثر تھا کہ جماعت اسلامی کے ممبران نے انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کر لیا۔ مگر حیران کن   طور پر پورے ملک کے امیر بننے کے بعد وہ  بجلی و گیس کی ناقابل برداشت قیمتوں اور لوڈ شیڈنگ، مہنگائی و بے روزگاری ،حکومت کی مزدور کش پالیسیوں اور دیگر عوامی نوعیت کے مسائل پر ڈھیلی ڈھالی پریس کانفرنسز تو کرتے نظر آ رہے ہیں ، مگر ملین مارچ  انہوں نے غزہ جیسے بین الاقوامی معاملات پر کرنا مناسب سمجھا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ پشاور کے غزہ مارچ میں وہ  64 لاکھ آبادی کے شہر پشاور میں وہ  چند ہزار لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور وہ بھی پورے صوبہ خیبر پختونخوا سے ۔  حاضری سے  آشکار ہے کہ پشاور کے  عام شہری کی غزہ ملین مارچ  سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی   گرچہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر وہ بھی اتنا ہی دکھی ہے جتنا کہ جماعت اسلامی کا کوئی کارکن۔

یہ  ناقابل فہم نہیں کہ پشاور میں جمع ہو کر نعرے بلند کرنے والے ایک لاکھ افراد کے مقابلے میں یوگنڈا و موزمبیق   وغیرہ جیسے ناقابل ذکر ممالک میں تعینات حکومت پاکستان کے ایک سرکاری نوکر یعنی کسی سفیر وغیرہ  کے جاری کردہ پریس نوٹ  کی زیادہ اہمیت ہے تو پھر جماعت اسلامی کی ترجیح پشاور میں ایک لاکھ افراد کو جمع کرنے کے بجائے حکومت پاکستان کے تمام سفیروں پر  اور تمام مشینری پر کنٹرول حاصل کرنا کیوں نہیں، یہ یقیناً ناقابل فہم ہے۔

جماعت اسلامی کی قیادت سے یہ بات  ڈھکی چھپی نہیں ہو سکتی  کہ پارلیمان کے بالا اور زیریں ایونوں کے سینکڑوں ارکان کی موجودگی میں اس کے صرف ایک سینٹر مشتاق احمد خان صاحب کی  نہ صرف بات کو  پورے پاکستان میں سنا اور محسوس کیا جاتا تھا  بلکہ وہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ  امریکہ و مصر  و لبنان وغیرہ جا کر جماعت اسلامی کی کوششوں کے لئے سرکاری  مشینری کی سپورٹ بھی فراہم کرتے رہے۔ان کی سینٹ سے رکنیت کے خاتمے کے بعد اب جماعت اسلامی کو وہ ایڈوانٹج حاصل نہیں رہا۔ تو پھر جماعت اسلامی ایسی  حکمت عملی کیوں نہیں اپناتی کہ پارلیمان کے بالا و زیریں ایوانوں میں  اس کے کئی مشتاق احمد خان ہوں اور پوری  دنیا میں ان کی گھن گرج بھی سنائی دے اور ریاستی مشینری بھی ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہو۔

 ایسا صرف تب ہی ممکن ہو سکتا ہے  جب جماعت اسلامی کو عوامی مقبولیت کا کندھا حاصل ہو اور وہ پارلیمان میں پہنچ کر نہ صرف اپنے بین الاقوامی ایجنڈے کی پیروی کر سکے بلکہ ملک کے اندر بھی اس کی سنی جائے اور اس کے وجود کو محسوس کیا جا سکے۔  

عوامی مقبولیت کا حصول  بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔ آپ عوام کی بولی عوام کے الفاظ میں بولیں تو عوام آپ کو اپنی سر آنکھوں پر بٹھانے کےلئے تیار ہوں گے اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر آپ ملکی و بین الاقوامی معاملات میں ذیادہ مئوثر کردار ادا کر سکیں گے۔ عوامی مقبولیت کے حصول کے لئے جماعت اسلامی کو اپنے بین الاقوامی ایجنڈے کو  فی الحال ثانوی حیثیت  پر رکھنا ہو گا اور  اولین ترجیح   ان معاملات کو دینی ہو گی جو عوام کو براہ راست متاثر کر رہے۔ دوسرے الفاظ میں ،یہ معاملات عوام کی دکھتی رگ ہیں اور ان پر ہاتھ رکھنے والا کوئی بھی نبض شناس ،  عوام کی مجموعی  سپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔ 

یہ مانا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کی  سرگرمیوں کی سمت جماعت اسلامی کی شوریٰ طے کرتی ہے  اور جماعت اسلامی کا امیر بھی جماعت کی شوریٰ کی طے کردہ سمت میں ہی  چلتا ہے  یا  چلنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر چہ جماعت اسلامی  کی شوریٰ میں موجود  اکثر افراد متوسط طبقے کے عوام میں  سے ہوتے ہیں مگر یہ ایک لاینحل سوال ہے کہ وہ عوام کی طرح سوچنے سے قاصر کیوں ہوتے ہیں ۔ ان کی سوچ ایک خاص دائرے سے باہر نکلنے اور عام عوام کی سطح  پر آنے سے کیوں  منکر ہوتی ہے۔ ان صاحبان کے لئے امریکہ  و روس کی پالیسیوں  پر مباحثہ کرنا، برطانوی و ہندی  تعلقات کے مسلمانوں  پر متوقع اثرات کا جائزہ لینا، چین کے   افریقہ میں بڑھتے اثرات  میں افریقہ کی مسلمان ریاستوں کی ترجیحات   پر غور و  فکر کرنا یا کم از کم  پان اسلامز م کی تحاریک  اور مسلمہ امہ   کے رد عمل  پر اظہار رائے کرنا  آسان معلوم ہوتا ہے مگر ان  کےلئے ایک ریڑھی بان کا بجلی  و گیس کا  بل، مزدور کے بچے کی سکول کی فیس و کتابیں،  کسی دیہاڑی دار کے علاج معالجے کے خرچ   کی فکر یا کسی عام پاکستانی  کا ریاستی و غیر ریاستی دہشتگردی  کے خطرات سے دوچار ہونا  شاید  نسبتاً غیر اہم  ہوتا ہے اور وہ ایسے معاملات کو اپنی بحث کا مرکز بنانا مناسب نہیں سمجھتے۔ اس کی واحد قابل فہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شوریٰ کے ارکان کی اکثریت عوامی لوگ نہیں ہوتے۔ نہ ہی انہوں نے عوامی سطح پر سیاست کی ہوتی ہے اور نہ عوام کے تھانہ کچہری کے مسائل کے حل کے لئے کوئی دوڑ دھوپ جبکہ جماعت اسلامی میں فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس ہے۔  ایسی صورت حال میں مستقبل قریب میں بھی ایسا ممکن نہیں  دکھائی دیتا کہ جماعت اسلامی کی شوریٰ کا کوئی عوام مزاج  اپنانے کا امکان ہو۔  یہ وہ بنیادی نقص ہے جو جماعت اسلامی کو ایک مقبول عام سیاسی جماعت  نہیں بننے دیتا اور جماعت اسلامی اپنی تمام تر نیک نامی، اپنے کارکن کے خلوص نیت  اور انتھک محنت کے باوجود ملکی سطح کی پہلی پانچ جماعت میں بھی اپنی جگہ بنانے سے قاصر ہے۔

ایسے میں  کراچی کے عوامی مسائل کو گھر و حجرے سے نکال کر چوک و چوراہے اور ایوان و عدالت تک پہنچانے والے حافظ نعیم الرحمان صاحب کو ہی کچھ پیش قدمی کرنی ہو گی اور   موجودہ حالات اور تحریک انصاف کی ٹوٹ پھوٹ  کی شکل میں پیدا ہونے والے متوقع خلا  کو پر کرنے کے لئے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو بین الاقوامی سے  کم کرکے مقامی سطح پر لانا ہو گا۔  فارم 47  اور  45 کا معاملہ بھی اہم ہے مگر آئی پی پیز سے کئے گئے ناروا معاہدے، بجلی و گیس کے ہوشربا بل، مہنگائی  اور بیروزگاری کا  طوفان  اور ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت ، جسے ریاستی سرپرستی حاصل ہے،  وہ سلگتے مسائل ہیں جن پر بات سننے کے لئے لوگوں کے کان ترس رہے ہیں۔ لوگ اس  مسیحا کے انتظار میں ہیں جو آئے اور سرمایہ داروں  و جاگیرداروں اور سرکاری اہلکاروں (فوجی و سویلین ) کی تکون کی طرف سے  معاشرے کی رگوں میں گھول دئیے گئے  زہر کا تریاق پیش کرے۔

آپ نے مہینہ بھر کی کوشش ، اپنی جماعت اور اپنے کارکن کے لاکھوں کے وسائل کے  استعمال  اور  اپنی پوری صوبے کی تنظیم کو استعمال کر کے پشاور میں چند ہزار افراد  جمع کئے مگر میں آپ کو  یقین دلاتا ہوں کہ آپ مہنگائی و بے روزگاری یا بجلی  و گیس کے بلوں  کے خلاف جلسے کے لئے صرف وقت اور مقام کا اعلان کریں اور پھر دیکھیں کہ لاکھوں لوگ اپنے خرچ پر جمع ہوتے ہیں یا نہیں۔ ان لاکھوں لوگوں کے سامنے غزہ کے مظلوموں کے لئے آواز بلند کرنے، مسلم امہ    کام مقدمہ پیش کرنے یا کشمیر  و عراق و شام  کا ذکر کرنے پر ہر گز کوئی پابندی نہیں ہو گی، مگر مرکزی نقطہ عوامی مسائل  ہی رہے تو   تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر آپ عوام کے سامنے ہوں گے۔ آپ عوامی مسائل پر بھی ایک ملین مارچ کر کے دیکھیں ، آپ مارچ لے کر اسلام آباد جائیں گے تو یقین رکھیں عوام آپ کو ڈی چوک پر نہیں چھوڑیں  گے بلکہ اس کے سامنے موجود سفید رنگ کی عمارت کے اندر پہنچا دیں گے۔ ایسے میں  ریاستی وسائل ، ادارے  اور  افراد آپ کی  طرف  انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکیں گے بلکہ  ایک پالتو  کتے کی طرح آپ کے آگے پیچھے دم ہلاتے پھریں گے ۔ تب آپ  کے پاس موقع بھی ہوگا، وسائل بھی ہوں گے اور اختیار بھی ہو گا کہ مقامی کے ساتھ ساتھ اپنے بین الاقوامی ایجنڈے  کی بھی پیروی کرتے رہیں۔

Monday, May 27, 2024

(The Ikhwan’s Dilemma) اخوانیوں کا المیہ

 





اخوانیوں کا المیہ

سیاسی اسلام کے کلید برداروں کو دنیا میں بالعموم اخوانیوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ سید محمد قطب شہید،  حسن البنا شہید اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر  سے فیضیاب ہونے والے   اخوانی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند (بشمول سری لنکا) میں انہیں جماعت اسلامی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مشرق بعید میں وہ  ماسیومی اور پان اسلامک تحاریک  جبکہ افریقہ اور عرب دنیا میں اخوان المسلمین کے نام سے معروف ہیں ۔  ترکیہ میں  ان ہی کا ایک آف شوٹ   آک پارٹی کے نام سے گزشتہ 20سال سے  برس اقتدار ہے ۔ ایران کا  اسلامی انقلاب گو کہ  اخوانی نہیں بلکہ سنی بھی نہیں مگر اس  کے ساتھ اخوانیوں  کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں ۔ اخوانی  بجا طور پر اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ تقریباً  تما م ہی اسلامی ممالک میں  نہ صرف وہ موجود ہیں بلکہ ان کے وجود کو محسوس بھی کیا جاتا ہے ۔

مگر اخوانیوں  کا المیہ یہ ہے کہ وہ ، ترکیہ کے استشناء کے ساتھ، دنیا کے کسی بھی ملک میں کامیابی سے اقتدار حاصل نہیں کر سکے، اور اگر حاصل کیا ہے تو اسے برقرار نہیں رکھ سکے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ کم و بیش ہر جگہ پر وہ بے رحم حاکموں  اور ریاستی طاقتوں  کا تختہ مشق بنے رہے ہیں بلکہ بنے ہوئے ہیں مگر  اخوان قیادت اپنے  بے گناہ   اخوانیوں کی جان و مال کی حفاظت کی کوئی تدبیر نہیں کر سکی ۔ اخوانی اپنی تحریر و تقریر میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رول ماڈل گردانتے  ہیں ۔ ہم اگر محمد عربی  کی تحریک   کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان  کی تحریک کا اٹھا ہوا ہر قدم اسے  ملکی اقتدار کے قریب لے گیا اور بالآخر انہوں نے صرف ایک ملک پر نہیں بلکہ دنیا کے طول و عرض میں اپنے رب کا اقتدار قائم کر دیا اور وہ بھی ۲۰ – ۲۵ سال کے مختصر وقت میں جبکہ   اخوانی مختلف علاقوں میں  عشروں سے  سرگرم عمل  ہیں مگر انہیں  اقتدار پر گرفت  تو کیا حاصل ہو، وہ ہر  جگہ ایک نہ ختم ہونے والے ظلم و تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔

غزہ اس کی اندوہناک  ترین مثال ہے۔غزہ کے اخوانی جو حماس کے نام سے جانے جاتے ہیں، تمام  فلسطینیوں کے نمائندہ بھی نہیں۔ اسرائیلی قبضے سے بچ جانے والے فلسطین کے  اکثریتی علاقے (ویسٹ بینک ) پر  یاسر عرفات کی سیکولر پارٹی الفتح کی حکمرانی ہے جبکہ حماس کا کنٹرول صرف غزہ کی پٹی پر ہے اور اسی  پٹی ہر دوسرے سال اسرائیلی فورسز  آگ و خون کا بازار گرم کر دیتی ہیں۔ بظاہر حماس وغیرہ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں عاجز نظر آتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں عام فلسطینی  آج بھی موت کا سامنا کررہے ہیں۔  حیرت اس بات ہوتی ہی کہ اگر حماس جنگ کی طاقت نہیں رکھتی تو  کیا محمد عربی کی سیرت سے ہمیں یہ سبق نہیں ملتا کہ خفیہ دعوت کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے، ہجرت کر کے کسی دوسری سرزمین پر اقتدار قائم کیا جائے یا کسی کے ساتھ اشتراک کا معاملے کیا جائے اور معقول طاقت حاصل کرنے کے بعد مقابلے میں اترا جائے ، پھر  چاہے وقت کی سپر پاور ہی مدمقابل کیوں نہ ہو، جم کے مقابلہ کیا جائے۔   مگر غزہ میں ہزاروں بے گناہ شہید  و زخمی ہوتے رہتے ہیں مگر حماس اس  معاملے کو سلجھانے سے قاصر نظر  آتی ہے۔

یہ صرف غزہ تک محدود نہیں۔ اس سے پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کشمیر میں جماعت اسلامی نے اپنے کارکنان کو ایک  ایسی جنگ میں اتارا جہاں انہیں صرف دشمن کے خلاف نہیں ، اپنے لوگوں کے خلاف  بھی جنگ  لڑنا   پڑی۔ برصغیر کے اخوانیوں  (جماعت اسلامی)نے  اپنے کارکنان کوتنخواہ دار فوجیوں کے لئے ڈھال بنا کر پیش کیا۔ جس کام کے لئے کھربوں کا بجٹ استعمال کرنے والی فوج رکھی ہوئی ہے، وہ ان اخوانیوں نے اپنے کارکنان سے کروانے کی کوشش کی۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں  ہلاک ہونے والے  ہزاروں بے گناہ اخوانیوں کا خون  یہاں کی اخوان قیادت کے ہاتھوں پر ہے جبکہ کشمیر میں تاحال صورت حال ویسی ہی ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش  بن چکا مگر 50 سال بعد آج بھی وہاں کے اخوانی  اپنی قیادت کے صحیح یا غلط فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں ۔

یہ صرف جماعت اسلامی پاکستان  نے  ہی نہیں کیا۔ مصر میں پہلے انوارالسادات، پھر حسنی مبارک اور اب عبدالفتح السیسی  کی ریاستی طاقت کے سامنے ایک عام اخوانی کو کھڑا کروا نے کی کوشش کی گئی۔ اخوان قیادت نے خود بھی ریاستی جبر کا سامنا کیا اور اپنے کارکن کو بھی  موت و   قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔مصریوں نے تو انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا بھی دیا تھا،  مگر اخوانی اقتدار پر اپنی گرفت برقرار نہ رکھ سکے۔ مصری اخوانیوں نے  کیسی  حکمت عملی   اختیار کی کہ اقتدار تو چھن  ہی گیا مگر ان کے ہزاروں بے گناہ کارکنان موت سے ہمکنار کر دیئے گئے یا قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہیں؟

معاملہ صرف مصر تک ہی محدود نہیں۔ شام میں پہلے حافظ الاسد نے اور پھر اس کے بیٹے  بشار الاسد نے بے گناہ  اخوانیوں کا بھیڑ بکریوں کی طرح قتل عام کیا۔ماضی قریب میں،بشار الاسد نے  حومص شہر کو ، جو اخوانیوں کا مرکز تھا، ملیا میٹ کر کے رکھ دیا اور لاکھوں بے گناہ شامی اخوانیوں کو  قتل کیا جبکہ ہزاروں اب بھی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے  ہیں۔ 

شام ،مصر ، پاکستان  اور غزہ  ہی نہیں، اس سے پہلے الجزائر(الجیریا)  میں کم و بیش یہی صورت حال پیش آئی۔ 1991 کے قومی و بلدیاتی   الیکشن تو اخوانی جیت گئے تھے  مگر بوجوہ  اقتدار حاصل نہ کر سکے ۔انہوں نے  اپنی دانست میں معقول فیصلہ کرتے ہوئے،  اسلامک سالویشن آرمی بنائی اور 10 سال تک ریاست پر قابض فوجیوں کے خلاف لڑتے رہے جس میں لاکھوں  کی تعداد  میں عام  الجزائری  بھی ہلاک ہوئے  اور اخوانی بھی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ الجزائر کےمنظر نامے پربظاہر  اب اخوانیوں کا کوئی وجود باقی نہیں۔

سوڈان میں بھی یہی صورت حال رہی۔  اخوانی اقتدار تک  تو پہنچ گئے مگر حیران کن طور پر اپنے ہی مقرر کردہ حاکم عمر البشیر کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہو گئے اور ایک سابق اخوانی ہونے کے باوجود بھی عمر البشیر نے ریاستی قوت کو اخوانیوں کے خلاف استعمال کرنے میں کسی بخل سے بالکل بھی کام نہیں لیا۔

کہنے کا مقصد  یہ بالکل بھی نہیں کہ اخوانیوں کو ان جابر حکمرانوں کی کاسہء لیسی کرنی چاہئے تھی اور اپنی جان بچانی چاہیے تھی،  بلکہ کہنا  یہ ہے کہ اخوانی قیادت نے کہیں پر بھی  اپنی طاقت کو  کیپٹلائز نہیں کیا، کوئی واضح ہدف مقرر کر کے اس تک پہنچنے کی مربوط منصوبہ بندی نہیں کی، اپنے کارکن کو ریاستی جبر کا مقابلہ حکمت سے کرنے   اور اپنی طاقت کو محفوظ رکھ کر صحیح وقت پر صحیح انداز میں استعمال کرنے کا طریقہ نہیں سکھایا، افغانستان کے دیوبندی طالب کی طرح وقت کی سپر پاور سے اقتدار  چھیننے کا گر  نہیں سکھایا ،  ترکیہ کے سابق اخوانیوں کی طرح حکمت کے ساتھ ریاست پر کنٹرول حاصل کرنا نہیں سکھایا  بلکہ  اپنے   عام کارکن کو مجاہد بنا کر، اسے شہادت اور جنت کی بشارتیں سنا سنا کر ،  بغیر کسی تیاری کے ریاست کے مقابل کھڑا کر کے اسے  ناحق موت سے دوچار کیا ہے۔

 اخوانی نہ تو اپنے ترک بھائیوں سے کوئی سبق سیکھنے کے لئے تیار ہیں  کہ پرامن طریقے سے اقتدار کیسے حاصل کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہوں نے افغانستان کے سکہ بند دیوبندیوں سے کوئی سبق حاصل کیا ہے کہ ملٹری/گوریلا  طاقت کو کیسے اقتدار حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Monday, November 20, 2023

THREATS TO THE EXAMINATION SYSTEM IN KHYBER PAKHTUNKHWA PAKISTAN


Medical and Dental Colleges Admission Test (MDCAT) 2023 has been rescheduled to be held on November 26, 2023, in Khyber Pakhtunkhwa and Sindh provinces of Pakistan. The test was previously held on September 10, 2023, across the country but leakage of question paper in Sindh and use of unfair means on vast scale including the use of sophisticated electronic blue tooth devices in Khyber Pakhtunkhwa compelled the respective governments to cancel the test and get it reconducted. Apart from approaching other quarters, a handful of candidates moved the Supreme Court too against the decision of the governments, which according to them, put the legitimate candidates in another phase of useless fatigue and provides another unnecessary chance to the failed candidates but the Supreme Court remained unconvinced. Resultantly, the Dow University of Health Sciences in Sindh and Government of Khyber Pakhtunkhwa through Khyber Medical University (KMU) in Khyber Pakhtunkhwa are striving to conduct a fair and transparent test in their respective provinces.

In Sindh, arrangements are being made as a matter of routine but in Khyber Pakhtunkhwa an unprecedented and somehow irrational hype is being witnessed with regard to arrangements for the test. The Educational Testing and Evaluation Agency (ETEA) which was established back in 1998 with the sole purpose of conducting entrance examinations for admissions in Medical Colleges and Engineering Universities, and it has conducted the tests since than for both entrance examinations, has been taken out of the process. The Government has entrusted KMU to conduct the test this time. However, reasons of withdrawal of the


test from ETEA has not been announced officially. Apparently, the primary reason is the assumption that if 219 candidates 
involved in cheating through a sophisticate Bluetooth device have been caught red-handed, many would have certainly dodged the arrangements and successfully attempted the paper with the help of unfair means. This assumption is denied by the ETEA authorities, and they ask for proofs if any such candidate has been identified by any authority or the Joint Investigation Team (JIT) constituted by the Home Department subsequent to the allegations of use of Bluetooth devices on social media. However, no such evidence has been presented by the Home Department, JIT or any other authority to the public so far. Many have already questioned that if ETEA is an attached department of Higher Education Department and Medical Colleges fall under the jurisdiction of Health Department, how come Home Department intervened in the matter and Additional Chief Secretary Home not only moved the summary to constitute the JIT but now he is leading the whole exercise of re-conduct of the test. The composition of the JIT has also been questioned by the media and the concerned candidates as well. They were of the view that if the offspring of two of its members (Additional Secretary Home Department and Deputy Director Intelligence Bureau) could not score the required marks in the held test and the JIT is headed by an officer of the Police department which failed to obstruct the sale-purchase of a forbidden device before the test and block its entry into the test centers, how the proceedings of the JIT can be impartial. ETEA authorities claim that Police, district administrations or the concerned Law Enforcement Agencies did not provide them the required support and they apprehend the devices solely at their own. However, now the situation has taken a dramatic turn.

The Additional Chief Secretary of the Home and Tribal Affairs Department is personally steering the whole process. He is not only chairing the coordination meetings, but he has also made the whole of the government machinery involved in the process. Commissioners and Deputy Commissioners have been assigned the task of managing the test centers. The Police department and other Law Enforcement Agencies are made responsible for making foolproof security arrangements in and around the test centers. Upon direction of the Home Department, concerned district administrations have imposed Section 144 of the Criminal Procedure Code in and around the venues. This section of law is usually employed to maintain law and order or bar a specific activity taking place in a particular area. It has also been revealed that the Provincial Government will approach the relevant authorities to suspend the mobile phone service on the test day. This all is being done just to administer an examination. Now the Government can possibly take three further steps to make the arrangements foolproof i.e., declaration of state of emergency which at the moment has been declared at the Health Department level only, deployment of armed forces and imposition of curfew in the cities where tests will be held.

In the meanwhile, the Public Service Commission of Khyber Pakhtunkhwa has also declared the recently conducted exam for recruitment of Sub-Divisional Officers (SDO)/Sub-Engineers in the Communication and Works Department as null and void on the identical allegations of use of Bluetooth devices. It would be interesting to see if the Additional Chief Secretary of the Home Department steps in and take the same measures during the re-conduct of this exam too because importance of recruitment of SDOs is no less than the admissions in medical and dental colleges.

Use of unfair means, mobile phones, Bluetooth devices, impersonation of candidates etc. are not confined to the entrance tests or recruitment of SDOs only. This menace is spread everywhere. There is always a hue and cry regarding every possible use of unfair mean in every exam conducted by the Boards of Intermediate and Secondary Education. The situation in higher education at universities’ level is also very grim where no external check exists on their examination system. ETEA and Public Service Commission conduct tests regularly for even more important positions. Is the intervention of Additional Chief Secretary Home, suspension of mobile phone service, imposition of Section 144, bringing in the Commissioners and Deputy Commissioners, involvement of whole of the government machinery etc. to conduct a test, a solution to this problem!!

Of course not. Examinations and tests for admission and recruitments is a continuous and unending process taking place throughout the year. It is not possible for irrelevant authorities to intervene every time and try to do a job which they are not meant to do. For some meager political gains this can happen once in a blue moon but the lasting solution rest in strengthening the institutions which have been established to do this job and bolstering the overall testing apparatus. Even more important is to track down the gangs involved in this business and bring them to justice. It is interesting to know about the gang which has been found involved in sabotaging the testing process by use of Bluetooth devices.

Information so far revealed from various channels has surfaced that the gangs involved in the scam have outshone the institutional setups of the government by using highly sophisticated equipment and staying abreast of its weaknesses. Society, on the other hand, has accepted this curse as a social norm and they do not hesitate to pay huge amounts to such gangs to get undue advantage for their children.


The main culprit reportedly involved in Bluetooth scandal both at Public Service Commission and MDCAT has been named as Mr. Zafar Mahmood, a graduate of University of Engineering and Technology Peshawar and presently an Assistant Director at Federal Public Service Commission, Islamabad. According to well placed sources, he along with his brother, an employee of Rescue Service 1122 and 76 other cronies are in the Police custody. They are being interrogated for their crimes and their cases are put in trails at various courts of law.

Mr. Mahmood was first caught by ETEA authorities during the Engineering Entrance Test in 2017 when he was impersonating as an invigilator during the test. He was handed over to the Police on the spot but on the very next weekend he was once again caught by ETEA when he impersonated as a candidate in MDCAT 2017, documentary evidence of which is available with Police and ETEA authorities. Once again Police took his custody, but he escaped justice. Obviously, it is not a one man job. He must be having a handful of members in his gang.

It would be best known to them that how many illegitimate candidates made their way to the professional colleges having unlawful support of this gentleman and how many ingenuine people joined various services in the public sector as the is in the business since 2016-17. Leakage or smuggling of question papers from the test centers and providing the solution to the targeted candidates from outside remained their most successful and widely used tactics. Impersonation (appearance of highly qualified persons in exams for actual candidates) through forged ID cards and other documents is yet another trick used by the said gang. But to the utter surprise of many, this time the gang came up with a novel idea of using Bluetooth devices for cheating purposes. It is astonishing to know that a prohibited device, which is meant to use in clandestine activities, was imported by the gang and sold to the candidates on a large scale. Hundreds of parents bought the device for their children by paying, or at least making commitments of paying millions of rupees to the gang, so that their children could make their way to the medical colleges. This large-scale activity, rumors about which were circulating before the test, went unattended. None of the relevant law enforcement agencies took notice of it. Of course, not all, but a huge number of candidates were caught in test centers, who pointed fingers to Zafar Mahmood's gang.

This must be a big surprise for the cheater candidates as well as the masterminds of the scam when the staff of ETEA, without having any technical tools or expertise, apprehended many of them and ultimately enabled Law Enforcement Agencies to arrest the members of gang.

Mr. Zafar Mahmood is considered an evil genius among his cronies. He is referred to as Pablo Escobar (the Columbian drug lord, who was famous for cheating the systems and running an intercontinental drug cartel known as Medellín Cartel). Mr. Mahmood followed in the footsteps of Escobar in another filthy business and ran it successfully for a long time. He has been ultimately arrested and is now facing trial, but he exposed weaknesses of the systems run by the government institutions. 

It is not possible that every time the Additional Chief Secretary or the Home department will step in and conduct the tests by engaging the whole of government machinery. It’s the responsibility of Law Enforcement Agencies to keep an eye on elements involved in criminal activities as referred above, and apprehend them before they are successful in executing their nefarious designs. It’s the responsibility of every testing regime to develop such systems and apparatus which are difficult to dodge. And It’s the responsibility of society to expose such elements instead of falling into their traps, else state and state institutions will become a laughingstock.

Friday, November 17, 2023

قوموں کی ترقی کا راز

ورلڈ ہیپینس رپورٹ کے مطابق فن لینڈ دنیا کا سب سے خوش و خرم اور انسانوں کی رہائش کے لئے دنیا کا بہترین ملک ہے۔ اس سے پہلے ۲۰۱۰ میں نیوز ویک بھی فن لینڈ کو  انسانوں کے رہنے کے لئے دنیا کا   بہترین ملک قرار  دے چکا ہے ۔

یہ  تقابل  صرف  ریاستی سرمائے،معاشی و فوجی قوت یا وسائل کی دستیابی کی بنیاد پر نہیں  کیا گیا بلکہ  تعلیم و صحت کی سہولیات، معاشی  مسابقت کے  مواقع کی فراہمی،  سیاسی استحکام ، پالیسی سازی میں عوام کی شرکت، کرپشن کےحجم  اور زندگی کے عمومی معیار کو بنیاد بنا کر کیا گیا ہے۔  اس رپورٹ کے مطابق فن لینڈ کا انسانی ترقی کا اشاریہ ( ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس) دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک  امریکہ ، برطانیہ، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک سے بھی کہیں زیادہ بہتر  ہے۔

 دسمبر 1917کو روس سے آزادی حاصل کرنے  والا فن لینڈ ، رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے نصف سے بھی کم ہے(کل رقبہ 3 لاکھ 38  ہزار مربع کلومیٹر )  اور آبادی کے لحاظ سے  پاکستان سے 40 گنا کم  ہے(صرف 56لاکھ  افراد)  مگر فن لینڈ کی جی ڈی پی  پاکستان کےکم و بیش برابر (321بلین ڈالر ) اور فی کس آمدنی پاکستان سے 36  گنا زائد ( 54ہزار ڈالر فی کس) ہے۔  مزے کے بات یہ ہے کہ روس سے آزادی حاصل کرنے والے ، روس کے سرحد پر واقع اور نیٹو کاایک فعال  ممبر ہونے کے باوجود اس ملک کا دفاعی بجٹ صرف4.8     ارب ڈالر  ہے جبکہ فوجی قوت صرف 34,700افراد پر مشتمل ہے ۔ ان فوجیوں  میں سے بھی صرف 25فیصد  (8600 ) پیشہ ور فوجی ہیں باقی رضا کار قسم کے لوگ ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کی فن لینڈ کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ 11لاکھ  سے زائد باقاعدہ فوج، لاکھوں کی تعداد میں پیرا ملٹری فورسز ر(ینجرز، ایف سی، سکائوٹس ، کوسٹ گارڈز، بارڈر فورسز  وغیرہ)، 65لاکھ ریٹائرڈ زندہ فوجی جو  سول بجٹ سے 563ارب روپے کی  پنشن وصول کرتے ہیں، کا فن لینڈ کے ساتھ کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ گو یہ  ایک جملہ معترضہ ہے مگر در حقیقت  دونوں ملکوں کی حیثیت کے تعین میں یہ بنیادی عوامل میں سے ایک ہے۔

انتظامی طور پر پاکستان کی 7 صوبائی /علاقائی حکومتوں کے مقابلے میں فن لینڈ  جیسا چھوٹا سا ملک  19علاقائی حکومتوں پر مشتمل ہے۔ 21کائونٹیز   کا انتظامی  سیٹ اپ اس کے علاوہ ہے جو کم و بیش پاکستان کے صوبائی حکومتی  انتظام  کے مشابہ ہے ۔ پاکستان کے 170اضلاع کے مقابلے میں،  جن کے پاس  انتظامی و مالی اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں، فن  لینڈ 309ایسی بنیادی انتظامی اکائیوں " میونسپلٹیز" پر مشتمل ہے ،  جن کے پاس کل حکومتی وسائل کے  50فیصد سے زائد  خرچ کرنے کا کلی اختیار ہے۔ ہر میونسپلٹی ایک مکمل حکومتی یونٹ ہے جو عوام کے ووٹوں کے ذریعے سے منتخب افراد چلاتے ہیں۔ فن لینڈ کے آئین کے تحت میونسپلٹی کو  مکمل مالی و انتظامی  خود مختاری  حاصل ہے۔ وہ نہ صرف اپنا بجٹ بنانے اور اسے خرچ کرنے  میں خود مختار  ہے بلکہ ٹیکس نافذ کرنے اور اکٹھا کرنے، ترقیاتی منصوبے بنانے ان پرعمل درآمد کرنے اور ریونیو حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی اقدام کرنے کے لئے مکمل طور پر خود مختار ہے۔ میونسپلٹی کے پاس تعلیم (ہمارے  ہاں کے ایلیمنٹری اور ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ)،  لائبریریز (ہمارے  ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ)، امور نوجوانان ( ہمارے  سپورٹس ڈپارٹمنٹ)،  اربن پلاننگ ( ہمارے  پی اینڈ ڈی ڈپارٹمنٹ)، بلڈنگ کنٹرول (ہماری ٹی ایم ایز)، ماحولیات (ہمارے  ہاں کے  انوائرنمنٹ ڈپارٹمنٹ)،  آبی وسائل(ہمارا تقریبا  واپڈا)،   آبپاشی (ہمارے اریگیشن ڈپارٹمنٹ)،  تعمیرات    (ہمارے سی اینڈ ڈبلیو  ڈپارٹمنٹ) اور تکنیکی امور  (ہمارے انڈسٹریز ڈپارٹمنٹ ) جیسے وہ بڑے بڑے معاملات ہیں جنہیں پاکستان میں  صوبائی اور مرکزی حکومتیں سرانجام دینے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ فن لینڈ کی   21کائونٹیز کے پاس سماجی بہبود (ہمارے سوشل و پاپولیشن ویلفئیر)،  صحت (ہمارے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ) اور ریسکیو سروس (ہمارے  ریلیف ڈپارٹمنٹ )جیسے معاملات نمٹانے کے اختیارات ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فن لینڈ میں فیصلہ سازی و انتظامی و مالی اختیارات کہاں پر ہیں۔

یہ صرف فن لینڈ کی انتظامی سیٹ اپ کی خصوصیت  نہیں ۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی مثال لی جائے تو ایک "شدید" قسم کا مرکز گریز حکومتی نظام عمل پذیر دکھائی دیتا ہے ۔ دنیا کے تقریبا تمام ترقی یافتہ ممالک نے مقامی سطح پر پورا حکومتی نظام  تشکیل دے رکھا ۔ فن لینڈ جیسے چھوٹے ملک کا موازنہ اگر  سپر پاور امریکہ  جیسے معاشی و جغرافیائی بلا (مانسٹر)کی مثال پیش کی جائے تو امریکہ کی  50ریاستوں کو  ریاستیں یا صوبے نہیں بلکہ 50ملک کہنا زیادہ مناسب معلوم ہو گا  کیونکہ ان  ریاستوں کو صرف  مکمل مالی و انتظامی  خود مختاری حاصل نہیں بلکہ عدلیہ ، دفاع ، کرنسی  اور چند قسم کے ٹیکسوں کے نفاذ کے علاوہ تقریباً  ہر معاملہ میں یہ ریاستیں ایک مکمل ملک کا اختیار رکھتی ہے۔   ان میں سے ہر ریاست کا اپنا  آئین ہے، اپنا قانون ہے ، اپنا جھنڈا، اپنا ترانہ، اپنی شناخت اور  اپنا نظام حکومت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ کے آئین کے تحت  ہر ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے  وہ کسی بھی وقت امریکی فیڈریشن سے علیحدگی کا اعلان کرکے ایک آزاد ملک بن سکتی ہے۔  ان ریاستوں کے تحت میونسپلٹیز  کا مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہے ۔   جنکنز (4000 افراد)  اور منیسوٹا( 200 افراد)  کی "حقیر" میونسپل حکومتوں  سے لے کر نیویارک اور لاس اینجلس کی لاکھوں افراد پر مشتمل میونسپل حکومتوں کے پاس  پولیس، ریسکیو، ہائوسنگ، میڈیکل سروسز،  ٹرانسپورٹ،  پبلک ورکس ، تعمیرات، پارکس، کھیل و تفریح حتیٰ کہ میونسپل عدالت قائم کرنے تک کے اختیارات ہیں جن میں امریکہ کی مرکزی حکومت کا کوئی دخل نہیں۔   

فن لینڈ جیسے چھوٹے اور امریکہ جیسے بڑے ملک کے حکومتی نظاموں کی مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے  اگر  ہم پاکستانی " نظام " کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان  میں کل انتظامی و مالی اختیار، حتیٰ کہ  زکواۃ جمع کرنے اور خرچ کرنے، یتیم خانہ چلانے، کچرا اٹھانے   جیسے کام بھی  مرکزی و صوبائی حکومتیں سرانجام دینے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں۔یہاں   اختیارات  کی مرکزیت کا یہ حال ہے کہ  پرائمری سکول میں بننے والا ٹوائلٹ  صوبائی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہوتا ہے، جبکہ اس سکول کے استاد کی ترقی و تعیناتی کے سمریوں پر صوبے کا چیف منسٹر دستخط کرتے نظر آتا ہے۔ بادی النظر میں یہ  کوئی صحیح الدماغ لوگوں کا کام نہیں مانا جا سکتا ۔  اختیارات کی مرکزیت کا اگر یہ عالم ہو گا تو کیا کسی سرکاری دفتر یا  حکومتی اہلکار کی اکائونٹبلٹی  کا  تصور بھی کیا جا سکتا ہے ؟اگر کسی سرکاری دفتر یا اہلکار کو اس کے انجام دیئے گئے کسی ٹھیک یا غلط کام کے لئے جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا  تو ریاست  یا حکومت کی اکائونٹبلٹی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

کوئی بھی حکومتی نظام عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے، عوام  کے وسائل سے ٹیکس حاصل کر کے اس سسٹم کے کِل پرزوں کو چلا یا جاتا ہے    اور یہ مانا جاتا ہے کہ سسٹم  کا فائدہ اس کے تحت بسنے والے عوام کو گا۔ روشن خیال معاشرے  حکومتی نظام کو عوام کے سامنے جوابدہ اور عوام کی مرضی اور منشا کے تابع  رکھتے ہیں ۔ عوام کی فلاح کی بابت فن لینڈ اور امریکہ کی مثال سامنے رکھیں تو  ایک فنش  54ہزار ڈالر کی أوسط سالانہ آمدنی رکھتا ہے جبکہ ایک عام امریکی70  ہزار ڈالر کی اوسط سالانہ آمدنی سے مستفید ہوتا ہے  جبکہ پاکستان جیسے با وسائل ملک کا باسی صرف 16سو ڈالر کی اوسط سالانہ آمدنی  کا حامل ہے۔عوام کو  جوابدہی  اور عوام کے اختیار کے حوالے سے عرض کیا جائے تو   اگر الاسکا  کے شہری رات کو امریکی شہری کی حیثیت سے سو جائیں اور انہوں نے فیصلہ کیا ہو کہ صبح الاسکا امریکی فیڈریشن کی ایک  ریاست نہیں بلکہ ایک   آزاد ملک ہو گا، تو ایسا عملی طور پر  واقع ہو جائے گا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی طاقت نہیں ، نہ امریکی کانگریس اور نہ امریکی سینٹ  کہ وہ ایسا ہونے سے روک سکے۔ امریکی صدر کو  تو ویسے بھی آئین کے تحت صرف ایک اختیار کا حاصل ہے "اعلان جنگ" کا  اختیار ( گو کہ  یہاں بھی اصل اختیار کانگریس کا ہے )، اور صدر  اگر بحیثیت کمانڈر انچیف اعلان جنگ کا  اختیار  استعمال کر بھی لیتا ہے تو  بھی زیادہ سے زیادہ  4گھنٹے   کے اندر  اسے کانگریس  کی توثیق  چاہیے ہو گی۔  باقی معاملات میں تو عوام اصل اختیار کے حامل ہیں اور وہ اس اختیار کو استعمال کر کے اپنا علیحدہ ملک تک  قائم کر سکتے ہیں۔

اگر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے نظام حکومت کا موازنہ پاکستان  ، برونڈی، پیراگوئے یا جارجیا  یا  جیسے پسماندہ ممالک کے ساتھ کیا جائے تو حد درجہ مرکزیت  کے حامل حکومتی نظام کے علاوہ جو دوسرا اہم عنصر یہ نظر آتا ہے کہ یہاں پر کوئی ادارہ نہیں بلکہ فرد  یا چند افراد فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں ۔ یہ فیصلہ ملک کے وزیراعظم کے تعیناتی و برخاستگی ہو یا  کسی پرائمری سکول میں  استاد کی تعیناتی ، سسٹم  اور پالیسی کے تحت نہیں بلکہ فرد کی  پسند نا پسند کے تحت طے پاتا ہے۔

سوال یہ ہے پاکستان میں  اختیارات کی اس قدر مرکزیت کا حقیقی فائدہ  کون اٹھا رہا ہے ؟ اگر عوام اس نظام کے منفعت مند نہیں اور اگر یہ نظام عوام کو جوابدہ نہیں تو اس نظام کو قائم رکھنے میں دلچسپی کس کی ہے؟ اس ملک کے حقیقی حکمران خواہ وہ پس پردہ رہ کر حکمرانی کر رہے ہوں یا فیلڈ مارشل بن کر، ان کے لئے تو سٹیس کو اور فیصلہ سازی کی مرکزیت ہی فائدہ مند ہے مگر کیا  عوام کے  ووٹوں سے منتخب   ہونے والے کسی قائد جمہوریت، کسی دختر مشرق،  کسی قائد انقلاب،  فرزند پاکستان ، شیر پاکستان وغیرہ نے اختیار کی شاندار مرکزیت کے  حامل اس نظام کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی ؟

جی ہاں ایسی کوششیں وقتا فوقتا ہوتی رہی ہیں جن میں اولین  کوشش قائد اعظم   محمد علی جناح کی ہدایت پر جسٹس منیر کمیشن   کا قیام تھا اور آخری قابل ذکر کوشش نواز شریف  کے دور حکومت میں  احسن اقبال کی ایگزیکٹیو سروس   کےقیام  کی کوشش تھی مگر نوآبادیاتی دور کے تشکیل دئیے گئے  "افسر شاہی " نظام کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی بھی کوشش  اقتدار پر اس کے کنٹرول  اور اثر و نفوذ کو کم نہیں کرسکی۔  

افسر شاہی کا  یہ نظام تشکیل دیتے وقت کمپنی سرکار کے پیش نظر عوام  کی فلاح  و بہبود  یا نظام کو عوام کے سامنے جوابدہ رکھنے  کا ہر گز کوئی مقصد نہ تھا بلکہ  ان کا مقصد اپنے  اقتدار کا دوام اور مقامی وسائل  پر کنٹرول تھا، اس لئے ان کا تشکیل دیا گیا نظام ان کی مقاصد کی بجاآوری کما حقہ کرتا رہا۔ چونکہ وہ نظام آج بھی   قائم ہے  اس لئے اس پورے نظام میں عوام  کسی بھی سطح پر  توجہ کا مرکز نہیں بلکہ  یہ نظام  صرف "حکمران طبقے " اور اس نظام کے کِل پرزوں ، جسے افسر شاہی  یا بیوروکریسی کہا جاتا ہے  کو مرکز بنائے، انہی  کے فائدے اور نقصان کو سامنے رکھ کر چل رہا ہے۔ یاد رہے کہ حکمران سے یہا ں مراد صرف  جاگیردار و سرمایہ دار سیاستدان ہی نہیں بلکہ "حقیقی" حکمران  ہیں،  جن کی ابتدائی و درمیانی زندگی" آفیسر میسوں "  میں لنچ و ڈنر کرتے اور گالف کلبوں میں وقت بیتاتے جبکہ آخری زندگی لندن، استنبول اور پیرس  کی رنگین فضائوں میں  سیر سپاٹے کرتے گزرتی ہے۔ ہاں موت کے بعد  انہیں ضرور اسی مٹی  کے سپرد کیا جاتاہے جسے وہ ساری زندگی روندتے رہے ہوتے ہیں۔

ماضی میں، بالخصوص انگریز دور حکومت میں،  اس افسر شاہی  نظام نے ہیکل اساسی (انفراسٹرکچر) بالخصوص نظام مواصلات کی ترقی  اور امن کے قیام  میں قابل رشک کردار ادا کیا مگر  اس  ترقی اور امن کا مقصد عوامی فلاح    تو  نہ تھا بلکہ اس کا بنیادی مقصد   انگریز سرکار کو پرامن ماحول میں لوٹ کھسوٹ کا موقع فراہم کرنا ، محصولات  جمع کرنا اورمقبوضہ جات میں  ان کی آمدورفت کو سہل بنانا تھا۔  بدلے میں اس افسر شاہی کو  مقامی لوگوں پر بے لگام اختیار ات اور وسائل میں سے " ہڈی"   بطور انعام حاصل کرنے کی اجازت تھی۔

 برصغیر میں انگریز حکومتی نظام  کے تین بنیادی کِلیں تھیں، فوج، افسر شاہی اور جاگیردار۔افسر شاہی کے مزید تین طبقات تھے جن میں انتظامیہ کے تحت پولیس اور عدالتوں کا نظام موجود تھا۔اس نظام میں نہ تو عوام کا کوئی عمل دخل تھا اور نہ  ہی اس نظام کی کوئی کِل عوام کو جوابدہ تھی۔ ہر کِل  کا بنیادی فرض  و ذمہ داری  حکمرانوں کی بلا چوں و چرا وفاداری  اور ان کے احکامات کی بجا آوری تھی، اس فرض کو  اس نظام نے اس وقت بھی گورے انگریزوں کے لئے  بخوبی سرانجام دیا اور آج بھی پوری تندہی کے ساتھ اسے   کالے انگریزوں کے لئے انجام دے رہا ہے۔

انگریز سرکار تو اپنا عرصہ حیات پورا کر کے ختم ہو گئی مگر اس کا تشکیل دیا گیا  نظام اپنی تمام تر حشر سامانیوں کا ساتھ آج میں موجود ہے ۔ اس سسٹم کا آج بھی  کمال یہ ہے کہ اس کے کِل پرزے    حکمرانوں کے لئے  وسائل "جمع" کرتے ہیں  اور بدلے میں اختیارات  (گو کہ انتظامی  حد تک وہ تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں) اور وسائل میں سے جائز و ناجائز حصہ حاصل کر سکتے ہیں ،جو رسمی بھی ہے (تنخواہوں، گاڑیوں اور دیگر مراعات  کی شکل میں ) اور غیر رسمی بھی  (کھلے عام  یا ڈھکی چھپی کرپشن کی  اجازت کی شکل میں)۔ اس نظام کو تبدیل کرنے کی  کوئی بھی کوشش   کارگر ثابت نہیں ہو سکی۔  

جاگیردار ی نظام ، جو خلاف آئین بھی ہے، خلاف شریعت بھی اور خلاف عقل بھی مگر  بھرپور وجود  کے ساتھ آج بھی اقتدار کو سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے ۔ پاکستان کے ساتھ ہی قائم ہونے والے بھارت کا جاگیردارانہ نظام مدت ہوئی خاک ہو گیا مگر پاکستان میں نہ صرف  روایتی جاگیردار طبقہ پوری حشر سامانیوں کے ساتھ آج بھی موجود ہے بلکہ اس کے متوازی  ایک غیر روایتی جاگیر طبقہ بھی پروان چڑھ چکا ہے  جو گیلنٹری ایوارڈز کے تحت  حاصل کی گئی بڑی بڑی جاگیروں کا  مالک بن چکا ہے ۔ یہ وہ جاگیریں ہیں جن کے لیے مواصلاتی نظام،  کچھی اور رینی کینالز  جیسی نہروں کا آبپاشی کا نظام   اور  آبادکاری کی ہر ممکن سہولت سرکاری خزانے سے  فراہم کی جاتی ہے مگر  اس کا فائدہ صرف  وہ مخصوص  گروہ اٹھا رہا ہے جس  کا پورا وجود پہلے ہی  ہن دولت سے لتھڑا پڑا  ہے۔  اس طبقے کی تعداد اور اس کی دسترس میں موجود وسائل  میں انتہائی خطرناک رفتار سے اضافہ جاری ہے ۔  نوآبادیاتی دور  کے نظام حکومت کی تین اکائیوں میں سے جس اکائی نے سب سے ذیادہ قوت اور طاقت حاصل کی ہے وہ  عسکری قوت  ہے ۔ بلکہ یہ کہنا  زیادہ مناسب ہو گا  کہ   نوآبادیاتی دور کی عسکری طاقت موجودہ  عسکری  طاقت کا عشر عشیر بھی نہیں تھی، (یہ حوالہ ملکی وسائل  پر اس کے کنٹرول کے تناظر میں ہے، حقیقی عسکری طاقت جو عوام یا ریاست کی جغرافیائی حدود کی حفاظت کے لئے ہوتی، کے حوالے سے نہیں۔  بنگلہ دیش،   سیاچن،گلگت بلتستان  کا  گائوں تر تک ، 5200مربع کلو میٹر کا چین کو  دیا گیا شکسگام  وغیرہ یہ ثابت کرنے  کے لئے کافی ہیں کہ یہ حقیقی  عسکری طاقت نہیں بلکہ   کچھ اور ہے)۔

موجودہ نظام سے فائدہ ، کم و بیش تناسب کے ساتھ، یہی تین اکائیاں اٹھا رہی ہیں اور کسی بھی فرد یا ادارے کی ہر اس کوشش  کو یہ مل کر ناکام بنا دیتی ہیں جو اس نظام میں کسی بنیادی تبدیلی کی کوشش کرتا ہے۔ نظام کی مرکزیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اسے کنٹرول کرنا انتہائی  آسان ہوتا ہے ۔  اقتدار کی کسی بھی کِل پر براجمان فرد کسی  بھی جائز و نا جائز  عمل کو انجام دینے کے لئے اس  حکومتی جز کی پوری قوت جھونک دینے میں ذرہ بھر نہیں ہچکچاتا  جس سے اس کا ذاتی مفاد وابستہ ہو یا  کسی بالائی قوت کی خوشنودی  وابستہ ہو۔   چونکہ  اپنے اس عمل  کے لئے وہ کسی فورم یا عوامی عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ، اس لئے وہ کوئی بھی غیر قانونی حتیٰ کہ غیر اخلاقی کام بھی دھڑلے سے انجام دے لیتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اسے کسی احتساب یا باز پرس کی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی۔

اس شدید مرکزیت کے حامل نظام  کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ اقتدار پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے ریاست کے کل وسائل پر کنٹرول بھی انہیں طبقات کو حاصل ہے جو اس نظام کا  حصہ بن جاتے ہیں۔ اور ان طبقات کے درمیان وسائل کی تقسیم ان کی اقتدار میں درجہ بندی کی بنیاد پر ہے۔ بلند ترین درجہ پر فائز شخص سب سے ذیادہ باوسائل ہو گا تاہم اس کی اسفل ترین سطح پر موجود شخص بھی وسائل سے محروم نہیں رہے گا۔ محروم صرف  وہ رہے گا جو اس نظام سے باہر ہو گا۔  

اس نظام کا تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ سب کچھ ، خواہ درست ہو یا غلط، پس پردہ ، عوام کی دسترس سے دور اور ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ، انجام دینا نہایت آسان ہے۔ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ عوام کو علم تک بھی نہیں ہو گا، اگر کسی غلط کاری کا علم ہو بھی جائے ، اس کا ثبوت نہیں ہو گا اور اگر ثبوت بھی تو چونکہ عوام کو جوابدہی  کا اختیار ہی نہیں اس لئے، احتساب  ایک بعید از قیاس خیال سے ذیادہ کچھ نہیں  ہو گا۔ یوں عوامی وسائل لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو کر سرے محل، مے فیئر فلیٹس،عبدالقادر ٹرسٹ،  پاپا جانزپیزا کی چینز اور آسٹریلیا  و ترکی  کے جزائر   پر تعمیر ہونے والے بنگلوں میں استعمال  ہوں گے اور کوئی  احتساب کا سوال بھی نہیں کر سکے گا۔

چونکہ اس نظام  اقتدار  و حکومت کے پیش نظر   ریاست یا عوام کی فلاح نہیں ،اس لئے  اس نظام میں عوام کی شرکت اور اسے عوام کی سامنے جوابدہ بنانا بھی پیش نظر نہیں ۔ نظام جس درجہ کی مرکزیت  کا حامل ہو گا، اس  پرکنٹرول حاصل کرنا بھی اسی درجہ  آسان ہو گا۔  اس لئے ترقی یافتہ قوموں نے اپنے نظام ہائے ریاست و حکومت کو حد درجہ  ڈیوالوڈ کر دیا ہے، اسے عوام کے حوالے کر دیا ہے اور اسے کھلا ڈھلا بنا دیا ہے۔ ریاست  کے مالک  عوام ہیں تو اختیار و  اقتدار کے حامل بھی عوام ہوں اور ریاست و حکومت عوام کے سامنے ہی جوابدہ  ہو۔ یہ  وہ راز ہے جو مغرب و مشرق کی جس قوم نے بھی پایا ہے ، ترقی  کی منازل طے کرتی گئی ہے۔  اس سے صرفِ نظر کرنے والے ایشاء و افریقہ و جنوی امریکہ  والے پسماندگی کی گہرائیوں میں آج بھی غوطہ زن ہیں اور اس باہر آنے کا مستقبل قریب میں بھی کوئی امکان نہیں۔