جماعت اسلامی نے مینار پاکستان پر
منعقد ہونے والے کل پاکستان اجتماع کے حوالےسے اعلان کیا تھا کہ بدل دو نظام کے نعرے کے تحت یہ
ایک منفرد پروگرام ہو گا جہاں سے ایک نئی تحریک کا آغاز ہو گا اور ملک کے نظام کو
حقیقی تبدیلی سے آشنا کیا جائے گا۔ اس اجتماع کے حوالے سے ملی جلی آرا سننے کو ملیں۔ بہت سوں
نے اسے جماعت کا ایک اور منظم ایونٹ قرار دیا جس میں خواتین کی نمائندگی اور شرکت
کو سراہا گیا تاہم کچھ نے انتظامات کے حوالے سے کمی کو تاہی کا ذکر بھی کیا۔
تاہم اہم یہ نہیں کہ یہ اجتماع
کتنا منظم تھا اور اس میں حاضری کتنی تھی اور کتنی خواتین شریک ہوئیں، اہم یہ ہے
کہ یہ اجتماع جماعت اسلامی کے گزشتہ
اجتماعات سے کس قدر منفرد تھا اور جماعت کی قیادت نے جس نئی تحریک کے آغاز کا ذکر
کیا تھا اس کی کیا پوزیشن ہے۔
جماعت اسلامی جیسی عالمگیر نوعیت
کی تحاریک سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ جمع تفریق کئے بغیر کسی ایونٹ کا
انعقاد کریں اور پھر اس کا حاصل ضرب معلوم کئے بغیر کسی نئی سرگرمی میں مصروف ہو جائیں۔ بلکہ یہ
امید کسی بھی باشعور سیاسی جماعت، دینی جماعت، انقلابی جماعت، الغرض کسی سے بھی
نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ سرگرمی برائے سرگرمی
انجام دیں اور اس کے مثبت یا منفی اثرات سے انجان رہیں۔ جماعت اسلامی کے اس اجتماعات پر بلامبالغہ کروڑوں روپے خرچ ہوئے
ہوں گے، جماعت اسلامی کے کارکنان نے ہفتوں مہینوں محنت کی ہو گی اور جماعت اسلامی کی قیادت
نے بھی جمع تفریق کی ہو گی اسی لئے ملک کے طول و
عرض میں ہونے والے 23 نومبر کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے
کے بجائے کئی دن کا یہ اجتماع کرنے کا
فیصلہ کیا ہو گا۔
کئی دنوں کے اجتماعات منعقد کرنے
کی روایت خالص مذہبی جماعتوں میں (جیسے
تبلیغی جماعت )، اصلاحی و روحانی جماعتوں
میں (جیسے پنج پیر یا پیر ذوالفقار
نقشبندی صاحب کی جماعتوں وغیرہ ) یا پھر بریلوی مکتبہ فکر کے پیروں کے گدی نشینوں کے ہاں (سالانہ عرس کی شکل میں) تو پائی جاتی ہے لیکن کوئی سیاسی
جماعت یا دینی و سیاسی جماعت اس طرح کی سرگرمی انجام نہیں دیتی۔ اس معاملے میں جماعت اسلامی واحد
استشناء ہے جو تواتر کے ساتھ کئی روزہ اجتماعات عام کرتی رہتی ہے۔
تبلیغی جماعت کی سہ روزہ اجتماعات
اور پیروں کے کئی روزہ عرس خالصتاً ثواب
کی نیت سے منعقد کئے جاتے ہیں اور ان میں شرکت کا واحد مقصد بھی ثواب ہی ہوتا ہے۔ ایسے اجتماعات کی ساخت بھی کلی طور
پر "ثوابی" نوعیت کی ہو تی ہے
جن کے منتظمین کسی دور رس نتیجے یا ہدف کے حصول سے بے نیاز ہو تے ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے افراد بھی اخروی
زندگی کی جمع تفریق کرکے ان اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے
مقابلے میں جماعت اسلامی نے اپنے اجتماع کو بدل دو نظام کے نعرے کے تحت منعقد کیا
اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایک ایسی نئی
تحریک کا آغاز کرنے جا رہی ہے جو اس ملک
میں قائم نظام کو بدل دے گی۔
اس اجتماع کو ختم ہوئے مہینہ بھر ہونے کو ہے،مگر ملکی منظر نامے پر اس
وقت صرف دو معاملات نمایاں ہیں۔ تحریک انصاف کے
اسیر قائد عمران خان کے حامی و مخالفین کی ہاہا کار ہے اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دندناتا دہشت گردی کا خوفناک دیو ہے جو کسی کے قابو میں
نہیں آ رہا۔ جماعت اسلامی جس اجتماع کی بنیاد پر ایک ملک گیر تحریک کی نیو ڈالنے
والی تھی ، اس کا کہیں غلطی سے بھی کوئی
ذکر نہیں ، حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے کارکنان بھی اسے بھول بھال گئے ہیں۔ ایسا لگتا
ہے جیسے ماضی کے اجتماعات کی طرح یہ بھی جماعت اسلامی کی ایک سرگرمی برائے سرگرمی
تھی جو شروع ہوئی ، چند دن تک میڈیا میں
اس کا تذکرہ رہا اور اب وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے ۔ اب جماعت اسلامی ایک مرتبہ پھر کسی سرگرمی کے لئے وسائل دستیاب کرے گی، وہ
سرگرمی انجام دے گی اور جماعت اسلامی کو کوئی
نفع و نقصان پہنچائے بغیر وہ سرگرمی بھی ختم
ہو جائے گی اور ایک مرتبہ پھر ہر طرف
ایک خاموشی سی چھا جائے گی۔
جماعت اسلامی کے اجتماعات عام جیسی تمام سرگرمیاں کم و بیش ایک ہی ساخت کی ہوتی ہیں جن کا واحد مقصد شاید اپنے کارکنان کو مصروف رکھنا ہوتا ہے ۔ حالیہ اجتماع بھی ماضی میں ہونے والے اجتماعات
کی ایک فوٹو سٹیٹ کاپی تھا جس میں جماعت اسلامی کے ہم خیال افراد جمع
ہوئے، آپس میں گپ شپ لگائی ، کچھ مقامی
اور کچھ بیرونی خواتین و حضرات کی تقاریر سنیں،
کچھ قراردادیں پاس کیں اور بلند و بانگ دعووں کے سائے میں اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جماعت اسلامی کے ہم خیال
لوگوں کے لئے ایک سہ روزہ آوٹنگ کا
پروگرام تھا جو پہلے بھی منعقد ہوتا رہا
ہے اور شاید آئند ہ بھی منعقد ہوتا رہے جس کا ملکی
سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔
بہت محتاط انداز میں یہ بات کی جا سکتی ہے کہ جماعت اسلامی
اپنے کارکنان کو خواہ وہ اسلامی جمیعت طلبہ کے
کالجوں یونیورسٹیوں کے طلباء ہوں یا پھر
جماعت اسلامی کے اپنے بزرگ و نوجوان کارکنان، صرف دو صلاحیتیں سکھاتی ہے۔ اول یہ کہ چندہ یا
اعانت یا ڈونیشن کیسے جمع کرنی ہے اور دوم یہ کہ تقریر کیسے کرنی ہے۔ جماعت اسلامی
کی مرکزی لیڈر شپ سے لے کر مقامی سطح تک تمام لوگ ان دو خصوصیات سے واضح طور پر مزین دکھائی دیں گے۔ یہ
طے ہے کہ وہ عمومی طور جانے مانے ایماندار ہوتے ہیں ( اور یہ بھی جماعت اسلامی کے اجتماعات اور لٹریچر
کا ایک ذیلی پراڈکٹ ہے) جس کی وجہ سے لوگ آنکھیں بند کر کے انہیں ڈونیشن دیں گے
اور دوم یہ کہ وہ زبردست مقرر ہوں گے۔ اس کے علاوہ نہ تو جماعت اسلامی نے کبھی شعوری طور پر کوئی سیاسی بیانیہ
تشکیل دینے کی کوشش کی ہے (قاضی
حسین احمد صاحب کے ظالمو قاضی آرہا ہے کے
استشناء کے ساتھ)، نہ ہی اپنے کارکنان کو مٔوثر سیاسی کارکن بنانے کی کوشش کی ہے ، نہ انہیں کاروباری
سلطنتیں قائم کرنے کا طریقہ سکھایا ہے، نہ
انہیں سرکاری اداروں میں نفوذ کرنے اور
نظام پر اثر انداز ہونے کی رہنمائی کی ہے اور نہ ہی انہیں میڈیا ہائوسز
بنانے یا شوکت
خانم و آغا خان کے جیسے ادارے قائم کرنے کے
گر سکھائے ہیں۔
چند دن تک چند ہزار یا چند لاکھ لوگوں کو ایک جمع کر کے ان
کے کھانے پینے کا انتظام کر کے انہیں تقریریں سنوانا یقینا ایک بڑا کام ہے مگر یہ اینگرو کارپوریشن ، سائبرڈ
یا فالکرم جیسی کوئی کمپنی قائم
کرنے ، حبیب بینک ، میزان بینک یا شفاء ہسپتال جیسا کوئی ادارہ قائم
کرنے اور کسی انتخابی حلقے کو فتح کرنے کے
مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
مان لیتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں کمپنیاں اور ادارے قائم نہیں کرتیں مگر سیاسی جماعتیں اپنی تمام سرگرمیاں کسی انتخابی عمل کو متاثر کرنے اور بالآخر انتخابی حلقے فتح کرنے کے لئے انجام دیتی ہیں ۔ کیا
یہ حیرت انگیز نہیں کہ ایک سیاسی جماعت الیکشن کے عمل کو نظر انداز کر کے چند دن
کے لئے اپنے کارکنان کی آئوٹنگ کا اہتمام کر رہی ہو، ملکی و مقامی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لئے کوئی بیانیہ ترتیب دینے کے بجائے بین الاقوامی مسائل پر توجہ مبذول رکھے ہو اور
ملکی سیاسی معاملات میں زندہ جاوید کردار ادا کرنے کے بجائے پریس کانفرنسوں
تک محدود ہو اور پھر گلہ مند ہو کہ لوگوں کو کھرے اور کھوٹے کی پہچان نہیں اور انہیں ووٹ دینے کے بجائے وہ کرپٹ سیاستدانوں کو
ووٹ دے دیتے ہیں اور آخری ہدف کے طور پر وہ فوج کو ذمہ دار قرار دے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں اقتدار میں نہیں آنے دے رہی۔
یہ کوئی پیچیدہ فلسفہ نہیں کہ یہ بیانیہ کی طاقت ہے جس نے جیل میں قید ایک فرد کو مقتدر قوتوں کے حواس خمسہ پر سوار کر رکھا ہے ۔ عمران خان صرف ایک فرد ہے، جس کی نہ ہی کوئی جماعت اسلامی جیسی تنظیم ہے اور نہ
ہی کوئی قابل اعتبار قیادت مگر اس کے بیانیہ کا جادو ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور ہر کوچہ و بازار میں اس کی گونج سنائی دے
رہی ہے ۔ عمران خان صاحب سے اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے مگر وہ شخص زندہ رہے یا مر جائے یا مار دیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی طرح اس کا بیانیہ
بھی اگلی کئی دہائیوں تک اس ملک کی سیاست پر
اثر انداز ہوتا رہے گا۔
اور آخری بات یہ کہ
بیانیہ مینار پاکستان کے دامن میں اقبال پارک کے گوشہ عافیت میں ترتیب تو پا سکتا
ہے مگر اسے پروان چڑھانے کے لئے مال روڈ، شاہراہ
فیصل، ڈی چوک، لیاقت باغ اور قصہ خوانی جیسی سیاسی رزم گاہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment