Search This Blog

Monday, April 4, 2011

کیا ترکی ہمارے لئے رول ماڈل بن سکتا ہے؟؟

Picture1 revolution سالوں سے سلگتے آتش فشان کا دہانہ جب تیونس میں پھٹ پڑا تو آنے والا زلزلہ قیامت خیز بھی تھا اور عبرتناک بھی جس نے صرف تیونس ہی نہیں پورے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بادشاہوں، امیروں اور مطلق العنان آمروں کے شکنجے میں کسے بلبلاتے لوگ بالآخر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی گردنوں سے غلامی کا جوا اتار پھنکا۔ تیونس پہلی دفعہ اس مزے سے آشنا ہونے جانے رہا ہے جسے جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اگلا پڑائو شمالی افریقہ کا سب سے اہم ملک مصر تھاجہاں تحریر سکوائر میں ایک نئی تاریخ تحریر کی گئی۔ مصریوں نے دور جدید کے فرعون صفت شخص کو چند ہفتوں میں نکال باہر کیا اور اپنے سوٹ کی پٹیوں میں بھی اپنے نام کندہ کروا کر پہننے والا حسنی مبارک آج شرم الشیخ کے ایک مکان میں سنگینوں کے سائے تلے قیدی کی حیثیت سے اپنی زندگی کے بقیہ دن گزار رہا ہے۔ امریکہ نوازی میں ایران کے رضا شاہ پہلوی کی تاریخ دہرانے والا حسنی مبارک اس بات سے آنکھیں بند کئے رہا کہ آنکھیں پھیرنے میں امریکا کا کوئی ثانی نہیں اور اپنے کاسئہ لیسوں کے لئے اس کا آخری عمل وہی ہوتا ہے جو ٹشو پیپر کو استعمال کرنے بعد کیا جاتا ہے۔ یمن ، بحرین، لیبیا الجزائر، شام ۔۔۔ فہرست میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور ہر جگہ تیونس اور مصر کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ تبدیلی کے اس سلسلے میں متاثرہ ملک کے ملحقہ ممالک کا کردار اور اس کے اثرات نہایت قابل غور ہیں۔
سب سے پہلے ایران کو دیکھتے ہیں، ہمارا یہ خیال ہے کہ ایران ایک برادر اسلامی ملک ہے جس پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں مگر ایران برادر اور اسلامی دونوں iran_nuclear_picture کے کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی توسیع کا اس کا اپنا ایجنڈا ہے جس پر ایران پوری دلجمعی سے عمل پیرا ہے۔ پاکستان میں کرم ایجنسی اور صوبہ بلوچستان میں ایرانی مداخلت اب راز نہیں رہی جہاں کی شیعہ آبادی کو ورغلا کر ایران اپنے مقاصد کی بارآوری چاہتا ہے جس میں بھارت اس کا قابل اعتماد اور قابل فخر حلیف ہے۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں دس سے پندرہ فیصد شعیہ آباد ہیں۔ نجران اس علاقے کا اہم شہر ہے جس کی تینتیس فیصد آبادی اسماعیلی شیعوں پر مشتمل ہے جبکہ دمام اور خبر جیسے اہم صنعتی شہروں میں بھی ایک بڑی تعداد میں شیعہ آباد ہیں جن کی مالی معاونت اور انہیں سنی بالادستی کے خلاف بھڑکانے میں ایران کا ہاتھ بیان کیا جاتا ہے۔ سنی طالبان کے خلاف شیعہ اکثریتی شمالی اتحاد کی مدد کر کے ایران نے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں کافی اضافہ کیا ہے جبکہ بحرین کی ننھی منی ریاست کو ایران کی اسمبلی کے سپیکر علی لاریجانی نے ایران کا صوبہ قرار دیا تھا۔ اگرچہ بحرین میں اسی فیصد آبادی شیعہ ہے مگر حکمران سنی مسلم ہیں۔ شیعہ اکثریت کو ایران اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بحرین کے حکمران ایرانی زیردستی سے بچنے کے لئے سعودی عرب سے براہ راست اور پاکستان بالواسطہ مدد کےخواستگار ہیں۔ بحرین کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کے لئے بحرینی حکمرانوں کے پاس صرف پاکستان کا آپشن ہے تاہم ایرانی مال اور اپنی اولاد کے ذریعے سعودی عرب میں آبادی کی تفریق کو اپنے حق میں کرنے کے منصوبے رکھنے والی شیعہ کمیونٹی کو بحرین میں ایسا کرنے سے روکنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ لبنان، شام اور عراق میں شیعہ اکثریت میں بھی ہیں اور طاقتور بھی۔ اگر بحرین اور یمن کے حوالے سے ایرانی منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو مشرق وسطیٰ میں ایران فیصلہ کن حیثیت اختیار کر جائے گا اور یہ صورتحال بہت سوں کے لئے ناقابل قبول ہے مگ1238205600-The-Kingdom-of-Saudi-Arabia ر سعودی عرب کے لئے ناقابل برداشت بھی۔
سعودی عرب نے اپنے مشرقی صوبے میں مستقبل بعید میں بھی ہونے والی متوقع گڑبڑ کا راستہ روکنے کے لئے خلیج تعاون کونسل کے جھنڈے تلے اپنی فوج بحرین میں داخل کر دی ہے ۔ سعودی حکمرانوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ایرانی اثر کو بحرین میں روک کراپنے مشرقی صوبے پر منڈلاتے خطرات کا سدباب کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر دمام میں ہونے والے حالیہ ہنگامے واضح کرتے ہیں کہ فی الحقیقت ایسا نہیں۔ انہیں بہر صورت اپنی جنگ اپنی دہلیز پر ہی لڑنی پڑے گی ۔ ہم بحرین میں ایرانی نفوذ پر تنقید کرتے ہیں مگر سعودی افواج کا بحرین میں داخلہ بھی قریباً اتنا ہی ناگوار محسوس کرتے ہیں۔ یمن میں سعودی عرب کا اثر و نفوذ ہی نہیں،مداخلت بیجا کسی طور پر بھی قابل تحسین نہیں۔ اور تو اور سعودی عرب پاکستان پر بھی دھونس جمانے سے ہر گز نہیں چوکتا، کیونکہ پاکستانی حکمرانوں کو بے پناہ نوازنے کے بعد وہ ایسا کرنے میں اپنی سامنے کوئی رکاوٹ نہیں پاتا۔ نواز شریف صاحب کا معاملہ یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان صرف امریکہ کہ کالونی نہیں سعودی عرب کا ایک ‘صوبہ’ بھی ہے۔pakistan-khappay
پاکستان کے نااہل حکمرانوں نے امریکہ اور سعودی عرب وغیرہ کی شہ پر جو کھیل افغانستان میں کھیلا وہ قابل تعریف ہرگز نہیں۔ افغان جہاد کے بعد اگر افغانستان کا مسئلہ افغان حل کرتے تو آگ و خون کی جو ہولی آج پورے پاکستان میں کھیلی جا رہی ہے اتنی دہشتناک نہ ہوتی۔ ہم نے افغانوں کے ساتھ اس سے بدتر معاملہ کیا جو ہم نے خالصتانیوں کے ساتھ کیا تھا۔ بین الاقوامی سیاست کرکٹ پر لگایا جواء تو نہیں کہ آپ ہاریں یا جیتیں پاکستانی وکٹ کیپر کی طرح ٹیم میں پھر بھی شامل ہی رہیں گے۔
ایران، سعودی عرب اور پاکستان کے مقابلے میں ایک اور ملک بھی پوری جاہ وحشمت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ جو صرف مسلمانوں کے معاملات میں نہیں ہر مظلوم قومیت کے لئے شاندار کردار ادا کر رہا ہے۔دنیا بھر میں المناک قدرتی آفات میں دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے اس کی خدمات تابناک ہیں Tayyab Erodgan ہی مگر جنگ و جدل کا شکار خطے بھی اس کے دستِ شفیق کا لمس اپنے اوپر محسوس کرتے ہیں۔ اس ملک کا نام ہے ترکی اور دنیا نے اسے مشرق اور مغرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے لئے چن لیا ہے۔ ترکی اسرائیل کا قریبی دفاعی دوست ہے مگر غزہ کے مظلوم مسلمانوِ کے درد میں تڑپتا ترکی کا وزیراعظم طیب اردگان فلسطینیوں کے لئے امید کا دیا بھی ہے۔ترکی نے لیبیا کے آمر معمر قذافی کو قریبی دوست ہونے کا احساس ہی نہیں دلایا بلکہ بن غازی میں اپنے قونصلیٹ کو باغیوں کے لئے کھول دیا تاکہ مذاکرات اور رابطے کا جو دروازہ سیاہ کار امریکیوں نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے فوجی حملے سے تباہ کرنے کی کوشش کی ہے، کھلا رہے اور دونوں فریق اپنے ملک کو دولخت ہونے سے بچانے کے لئے جو کوشش کر سکتے ہیں، کرتے رہیں۔ طیب اردگان شام کے صدر بشر الاسد کو اصلاحات کرنے کے لئے انسپائر کر رہے ہیں، لبنان میں شیعہ، سنی اور دروزیوں کے درمیان رابطہ کار ہیں اور حال ہی میں انہوں نے استنبول میں طالبان کو بھی اپنا سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ اپنا جس طرح کا رابطہ قائم رکھنا چاہتے ہیں قائم کریں، مگر حامد کرزئی ترکی کو اپنا جتنا ہمدرد اور غمگسار سمجھتے ہیں اور کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تمام مقامات پر ترکی بن بلائے نہیں گیا اور نہ ہی اس نےکہیں پر دھونس جمانے کی کوشش کی ہے بلکہ اس کر کردار انتہائی میانہ رو، باہمی احترام اور صلح جوئی پر مبنی ہے جس کہ وجہ سے ترکی دوست تو سب کا ہے، دشمن کسی کا نہیں۔
۔۲۰۲۰ میں دنیا کی پہلی دس معیشتوں میں مقام پانے کے امیدوار ترکی کا بین الاقوامی سیاست میں روز بروز نکھرتا اور عزتمند ہوتا ہوا کردار ہمارے لئے قابل فخر ہی نہیں قابل تقلید بھی ہونا چاہئے، ناکہ کوئلوں کی دلالی میں اپنا منہ کالا کرنے اور ذلت کی پستیوں میں گرنے والے امریکیوں کی طرح ہمارا مقدر بدنامی ہی بدنامی ہو۔