Search This Blog

Friday, February 19, 2016

The dilemma of poor governance in Khyber Pakhtunkhwa... خیبر پختونخوا میں ناقص حکومت گری

عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افراد جن کو عوام کے ووٹ کی طاقت اسمبلیوں میں پہنچاتی ہے ، حکومت ہوتے ہیں۔ تاہم قانونی طور پر درست ہونے کے باوجود بھی یہ خیال، خام خیالی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ حقیقی حکومت افراد کا وہ گروہ ہے جسے عرف عام میں 'افسر شاہی' یا بیوروکریسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چند درجن افراد پر مشتمل یہ گروہ ہر طرح کے 'موسمی حالات' میں حکومت ہی ہوتا ہے۔ عوام اپنے ووٹوں سے چند لوگوں پر مشتمل اسمبلیاں تشکیل دیں یا خاکی وردی والے اپنی بیرکوں سے نکل کر ان اسمبلیوں کو اپنے بوٹوں تلے مسل ڈالیں، حقیقی حکومت اسی گروہ کی ہوتی ہے۔
معاملہ تو پورے ملک میں ایک جیسا ہے مگر خیبر پختونخوا کے ساتھ سانحہ یہ ہوا ہے کہ یہاں پر تبدیلی کا مینڈیٹ عوام نے تحریک انصاف کو دیا، یا حقیقی معنوں میں عمران خان کو دیا جبکہ عمران خان نے اس مقصد کے لئے جن پتوں پر تکیہ کیا وہ ہمیشہ سرسبزوشاداب رہنے والا افسر شاہی کا یہی گروہ ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ عمران خان نے خیبر پختونخوا میں حکومت سنبھالتے ہی افسر شاہی کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ عوام کے منتخب کردہ افراد ان کھوٹے سکوں سے زیادہ کچھ نہیں جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے جیب سے نکل کر آج ن کی جیب کے مکین بن چکے ہیں۔ عوام کے منتخب کردہ وزراء کی اہمیت اور ضرورت صرف اتنی ہے کہ وہ افسر شاہی کے تیار کردہ قوانین کی اسمبلیوں میں توثیق کرتے رہیں گے۔ اس کے بدلے میں انہیں گاڑی، دفتر اور پولیس کے گن مین کی سہولت مہیا رہے گی۔
پوری دنیا میں حکومتی نظام کو چلانے کے لئے بھی کارپوریٹ طرز کا نظام تشکیل پا چکا ہے جس میں مختلف شعبہ جات کو کمپنیوں کی شکل میں اس شعبہ کے ماہرین کے زریعے سے چلایا جاتا ہے۔اس خاص شعبہ سے متعلقہ بنیادی تعلیمی قابلیت رکھنے والے افرادکو ہی اس شعبہ میں شامل کیا جاتا ہے جو اپنی خدمات تا دم آخر وہاں ہی میں سرانجام دیتے ہیں۔دوران سروس ان کی استعداد کار بڑھانے کے لئے کی جانے والی حکومتی سرمایہ کاری اور وقت گزرنے کے ساتھ حاصل ہونے والا تجربہ ان افراد کو اپنے شعبے کا ماہر ترین فرد بنا دیتا ہے۔  یہ پروفیشنل افراد اپنے ادارے کی کارکردگی کو حقیقی معنوں میں چار چاند لگانے کا باعث بنتےہیں۔نہ صرف وہ ادارہ بلکہ پورا ملک ایسے افراد کی خدمات سے مستفید ہوتا ہے۔
کیا یہ ایک احمقانہ طرز فکر نہیں کہ آپ ایک شخص کو صرف ایک شعبہ کا ماہر (ماسٹر)بنانے کے بجائے اسے تمام شعبہ جات کے لئے ہرفن مولا (جیک)بنانے کے کوشش کرتے رہیں اور یوں وہ کسی بھی شعبہ کے لئے حقیقی معنوں میں کارآمد نہ بن سکے۔
حکومت خیبر پختونخوا کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ ڈویژنل سطح پر حکومتی معاملات چلانے والے فرد کو یکدم قانونی امور کا ماہر قرار دے کر محکمہ قانون میں ذمہ داریاں نبھانے کا حکم ملتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد اسے ماہر ماحولیات بنا کر محکمہ جنگلات میں تعینات کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ یہ صاحب تو بہت بڑے ماہر معاشیات ہیں اس لئے ان کی خدمات محکمہ خزانہ کے سپرد کر دی جاتی ہیں اور پھر چند ہی روز بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ صاحب بہترین سول انجنئیر گردان کر محکمہ مواصلات بھجوا دئیے گئے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تب تک دراز رہتا ہے جب تک وہ صاحب سروس کو خیرباد نہیں کہہ دیتے۔ وہ جس محکمہ میں بھی جاتے ہیں ان کا سبق الف ، ب سے شروع ہوتا ہے۔ حکومت اپنا سرمایہ اور اپنا وقت انہیں اس شعبے کی ج، د سکھانے پر صرف کرتی ہے۔ اسی شعبے کے حوالے سے منعقد ہونے والی مختلف اندرون ملک اور بیرون ملک تربیت گاہوں سے وہ مستفید ہوتے ہیں، محکمہ کے پرانے افراد انہیں یہ سکھانےکی جدو جہد کرتے ہیں کہ ڈی آر آر اور ڈی آر ایم کی اصطلاحات کا مطلب کیا ہے، میڈیم ٹرم بجٹ ری فریم ورک اور آئوٹ پٹ بیسڈ بجٹ کیا ہوتا ہے اور جب وہ اس مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ان کی ذمہ داریاں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔
افسر شاہی کے لئے یہ نظام حد درجہ موزوں ہے۔ ان کی مراعات اور استحقاق ہر جگہ برقرار رہتی ہیں مگر ان پر کسی امر کی ذمہ داری فکس نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ نئی جگہ پر وہ ابھی آئے ہوتے ہیں اور پرانی جگہ سے وہ جا چکے ہوتے ہیں۔ مگر اس نظام کے تباہ کن اثرات معاشرے اور ریاست کوبرداشت کرنا پڑتے ہیں جیسا کہ خیبر پختونخوا میں ہو رہا ہے۔
کیا یہ اطلاعات دھماکہ خیز نہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا ۱۷۳ ارب روپے کاسالانہ ترقیاتی پروگرام ۷۷ ارب کے خسارے کا شکار ہے۔ غلط اندازوں پر تیار کئے گئے یا تیار کئے گئے پروگرام کے لئے طے شدہ  اہداف حاصل نہ کرپانے کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی، یہ کوئی بھی نہیں بتا سکتا کیونکہ صوبے کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔ یہ صرف ایک معاملہ ہے جو تبدیلی کےعلمبرداروں کا منہ چڑا رہا ہے جبکہ باب پشاور فلائی اوورکی تعمیر میں ہونے والی فنی اور مالی بدعنوانیوں پر کی جانے والی مجرمانہ چشم پوشی کا تباہ کن اثر آج نہیں تو کل ضرور سامنے آئے گا۔
اگر آپ کے پاس حکومت گری کا درکار صلاحیت موجود نہیں توصرف گاڑی ، بنگلے اور چند دیگر مراعات کے لئے بدانتظامی کی کالک منہ پر ملنے کی کیا منطق ہے؟ 

Thursday, February 4, 2016

Bab-e-Peshawar Flyoverباب پشاور فلائی اوور

سورے پل (شیر شاہ سوری پل) پر تعمیر ہونے والا ملک سعد فلائی اوور متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے کم و بیش پانچ سال کی مدت میں مکمل کیا تھا جبکہ اس سے متصل چارسدہ روڈ اور صدر کو ملانے والا مفتی محمود فلائی اوور کی تعمیر کوشش بسیار کے بعد ۷ سال میں ممکن ہو سکی اگر چہ نک سک کی درستگی کا کام آج آٹھویں سال میں بھی جاری ہے۔ ان دونوں فلائی اوورز کی لمبائی کے برابر لاہور کا  آزادی چوک فلائی اوور حیران کن طور پر صرف ۹۰ دنوں میں تعمیر کر دیا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا کی مخلوط صوبائی حکومت کے حقیقی سربراہ عمران خان صاحب ہمیشہ ہیکل اساسی (انفراسٹرکچر) کے بجائے انسانی وسائل کی تعمیر کے وکیل رہے ہیں اورشریف برادران کی میٹروز، موٹرویز اور فلائی اوورز پر مبذول توجہ کو ہدف تنقید ہی بناتے رہے تاہم صوبائی حکومت نے پشاور کے حیات آباد موڑ پر باب پشاور کے نام سے فلائی اوور  تعمیر کیا تووہ بنفس نفیس اپنی صوبائی حکومت کے اتحادی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق صاحب کے ہمراہ اس پل کا افتتاح کرنے تشریف لائے اور اب وہ اس پل کو 180دن میں تعمیر کرنے صوبائی حکومت کے اس کارنامے پر پھولے نہیں سماتے۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دونوں ہی کے کارکن اس پل کی تعمیر کا کریڈٹ لینے میں ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کارکنان اسے محکمہ بلدیات کے سینئر صوبائی وزیر عنایت اللہ صاحب کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے  جبکہ تحریک انصاف اسے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب کے ویژن کا عکاس منوانے کی کوششوں میں جتی ہے۔ کریڈٹ کے حصول کی جنگ میں اس پل کی تعمیر میں ہونے والی سنگین مالی بے قاعدگی اور قواعد سے روگردانی کا 'کارنامہ' پس منظر میں چلا گیا ہے۔
قانون و قواعد کی رو سے حکومت اس امر کی پابند ہے کہ وہ عوامی وسائل کی ایک کوڑی بھی خرچ کرنے کے لئے 'کھلی نیلامی/بولی' کا طریقہ کار اپنائے گی جس کے تحت ہر مجاز فرد یا ادارہ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے اور حکومت ان میں سے کم ترین بولی دینے والے ادارے کو وہ ٹھیکہ دینے کی پابند ہے۔ حکومت کوئی بھی ٹھیکہ اپنے من پسند  فرد یا ادارے کو نوازنے کے لئے نہیں دے سکتی۔ مگر باب پشاور فلائی اوور کی تعمیر کی ٹھیکہ فوج کے ایک ذیلی ادارے این ایل سی کو تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیا گیا۔ متعلقہ شعبہ سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ اس پل کی تعمیر کے لئے دی جانے والی مبلغ ایک ارب 70کروڑ کی رقم حقیقی خرچ کا دو گنا ہے۔
کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس پل کو بلا ضرورت تعمیر کیا گیا ہے۔ اس چوک پر ٹریفک کو مسئلہ اتنا گھمبیر نہ تھا کہ اس کے حل کے لئے دو منزلہ فلائی اوور تعمیر کیا جاتا بلکہ شرقا" غربا”  تعمیر ہونے والی ایک زیر زمین گزر گاہ (انڈر پاس) جو صرف چند کروڑ روپے سے تعمیر ہو جاتی ، اس چوک کو سگنل فری بنا سکتی کر ٹریفک کا مسئلہ حل کر سکتی تھی۔ اس پل کے تعمیر سے صرف قریب میں تعمیر ہونے والے عسکری ادارے کے مجوزہ رہائشی منصوبے کی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
پل کی تعمیر ایک اچھا قدم ہے تاہم بہتر ہوتا اگر عمران خان صاحب یا صوبائی حکومت ان دو اہم معاملات کے حوالے  سے بھی پشاوریوں کی تشفی کروا دیتی۔