Search This Blog

Friday, February 19, 2016

The dilemma of poor governance in Khyber Pakhtunkhwa... خیبر پختونخوا میں ناقص حکومت گری

عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افراد جن کو عوام کے ووٹ کی طاقت اسمبلیوں میں پہنچاتی ہے ، حکومت ہوتے ہیں۔ تاہم قانونی طور پر درست ہونے کے باوجود بھی یہ خیال، خام خیالی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ حقیقی حکومت افراد کا وہ گروہ ہے جسے عرف عام میں 'افسر شاہی' یا بیوروکریسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چند درجن افراد پر مشتمل یہ گروہ ہر طرح کے 'موسمی حالات' میں حکومت ہی ہوتا ہے۔ عوام اپنے ووٹوں سے چند لوگوں پر مشتمل اسمبلیاں تشکیل دیں یا خاکی وردی والے اپنی بیرکوں سے نکل کر ان اسمبلیوں کو اپنے بوٹوں تلے مسل ڈالیں، حقیقی حکومت اسی گروہ کی ہوتی ہے۔
معاملہ تو پورے ملک میں ایک جیسا ہے مگر خیبر پختونخوا کے ساتھ سانحہ یہ ہوا ہے کہ یہاں پر تبدیلی کا مینڈیٹ عوام نے تحریک انصاف کو دیا، یا حقیقی معنوں میں عمران خان کو دیا جبکہ عمران خان نے اس مقصد کے لئے جن پتوں پر تکیہ کیا وہ ہمیشہ سرسبزوشاداب رہنے والا افسر شاہی کا یہی گروہ ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ عمران خان نے خیبر پختونخوا میں حکومت سنبھالتے ہی افسر شاہی کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ عوام کے منتخب کردہ افراد ان کھوٹے سکوں سے زیادہ کچھ نہیں جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے جیب سے نکل کر آج ن کی جیب کے مکین بن چکے ہیں۔ عوام کے منتخب کردہ وزراء کی اہمیت اور ضرورت صرف اتنی ہے کہ وہ افسر شاہی کے تیار کردہ قوانین کی اسمبلیوں میں توثیق کرتے رہیں گے۔ اس کے بدلے میں انہیں گاڑی، دفتر اور پولیس کے گن مین کی سہولت مہیا رہے گی۔
پوری دنیا میں حکومتی نظام کو چلانے کے لئے بھی کارپوریٹ طرز کا نظام تشکیل پا چکا ہے جس میں مختلف شعبہ جات کو کمپنیوں کی شکل میں اس شعبہ کے ماہرین کے زریعے سے چلایا جاتا ہے۔اس خاص شعبہ سے متعلقہ بنیادی تعلیمی قابلیت رکھنے والے افرادکو ہی اس شعبہ میں شامل کیا جاتا ہے جو اپنی خدمات تا دم آخر وہاں ہی میں سرانجام دیتے ہیں۔دوران سروس ان کی استعداد کار بڑھانے کے لئے کی جانے والی حکومتی سرمایہ کاری اور وقت گزرنے کے ساتھ حاصل ہونے والا تجربہ ان افراد کو اپنے شعبے کا ماہر ترین فرد بنا دیتا ہے۔  یہ پروفیشنل افراد اپنے ادارے کی کارکردگی کو حقیقی معنوں میں چار چاند لگانے کا باعث بنتےہیں۔نہ صرف وہ ادارہ بلکہ پورا ملک ایسے افراد کی خدمات سے مستفید ہوتا ہے۔
کیا یہ ایک احمقانہ طرز فکر نہیں کہ آپ ایک شخص کو صرف ایک شعبہ کا ماہر (ماسٹر)بنانے کے بجائے اسے تمام شعبہ جات کے لئے ہرفن مولا (جیک)بنانے کے کوشش کرتے رہیں اور یوں وہ کسی بھی شعبہ کے لئے حقیقی معنوں میں کارآمد نہ بن سکے۔
حکومت خیبر پختونخوا کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ ڈویژنل سطح پر حکومتی معاملات چلانے والے فرد کو یکدم قانونی امور کا ماہر قرار دے کر محکمہ قانون میں ذمہ داریاں نبھانے کا حکم ملتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد اسے ماہر ماحولیات بنا کر محکمہ جنگلات میں تعینات کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ یہ صاحب تو بہت بڑے ماہر معاشیات ہیں اس لئے ان کی خدمات محکمہ خزانہ کے سپرد کر دی جاتی ہیں اور پھر چند ہی روز بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ صاحب بہترین سول انجنئیر گردان کر محکمہ مواصلات بھجوا دئیے گئے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تب تک دراز رہتا ہے جب تک وہ صاحب سروس کو خیرباد نہیں کہہ دیتے۔ وہ جس محکمہ میں بھی جاتے ہیں ان کا سبق الف ، ب سے شروع ہوتا ہے۔ حکومت اپنا سرمایہ اور اپنا وقت انہیں اس شعبے کی ج، د سکھانے پر صرف کرتی ہے۔ اسی شعبے کے حوالے سے منعقد ہونے والی مختلف اندرون ملک اور بیرون ملک تربیت گاہوں سے وہ مستفید ہوتے ہیں، محکمہ کے پرانے افراد انہیں یہ سکھانےکی جدو جہد کرتے ہیں کہ ڈی آر آر اور ڈی آر ایم کی اصطلاحات کا مطلب کیا ہے، میڈیم ٹرم بجٹ ری فریم ورک اور آئوٹ پٹ بیسڈ بجٹ کیا ہوتا ہے اور جب وہ اس مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ان کی ذمہ داریاں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔
افسر شاہی کے لئے یہ نظام حد درجہ موزوں ہے۔ ان کی مراعات اور استحقاق ہر جگہ برقرار رہتی ہیں مگر ان پر کسی امر کی ذمہ داری فکس نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ نئی جگہ پر وہ ابھی آئے ہوتے ہیں اور پرانی جگہ سے وہ جا چکے ہوتے ہیں۔ مگر اس نظام کے تباہ کن اثرات معاشرے اور ریاست کوبرداشت کرنا پڑتے ہیں جیسا کہ خیبر پختونخوا میں ہو رہا ہے۔
کیا یہ اطلاعات دھماکہ خیز نہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا ۱۷۳ ارب روپے کاسالانہ ترقیاتی پروگرام ۷۷ ارب کے خسارے کا شکار ہے۔ غلط اندازوں پر تیار کئے گئے یا تیار کئے گئے پروگرام کے لئے طے شدہ  اہداف حاصل نہ کرپانے کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی، یہ کوئی بھی نہیں بتا سکتا کیونکہ صوبے کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔ یہ صرف ایک معاملہ ہے جو تبدیلی کےعلمبرداروں کا منہ چڑا رہا ہے جبکہ باب پشاور فلائی اوورکی تعمیر میں ہونے والی فنی اور مالی بدعنوانیوں پر کی جانے والی مجرمانہ چشم پوشی کا تباہ کن اثر آج نہیں تو کل ضرور سامنے آئے گا۔
اگر آپ کے پاس حکومت گری کا درکار صلاحیت موجود نہیں توصرف گاڑی ، بنگلے اور چند دیگر مراعات کے لئے بدانتظامی کی کالک منہ پر ملنے کی کیا منطق ہے؟ 

Thursday, February 4, 2016

Bab-e-Peshawar Flyoverباب پشاور فلائی اوور

سورے پل (شیر شاہ سوری پل) پر تعمیر ہونے والا ملک سعد فلائی اوور متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے کم و بیش پانچ سال کی مدت میں مکمل کیا تھا جبکہ اس سے متصل چارسدہ روڈ اور صدر کو ملانے والا مفتی محمود فلائی اوور کی تعمیر کوشش بسیار کے بعد ۷ سال میں ممکن ہو سکی اگر چہ نک سک کی درستگی کا کام آج آٹھویں سال میں بھی جاری ہے۔ ان دونوں فلائی اوورز کی لمبائی کے برابر لاہور کا  آزادی چوک فلائی اوور حیران کن طور پر صرف ۹۰ دنوں میں تعمیر کر دیا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا کی مخلوط صوبائی حکومت کے حقیقی سربراہ عمران خان صاحب ہمیشہ ہیکل اساسی (انفراسٹرکچر) کے بجائے انسانی وسائل کی تعمیر کے وکیل رہے ہیں اورشریف برادران کی میٹروز، موٹرویز اور فلائی اوورز پر مبذول توجہ کو ہدف تنقید ہی بناتے رہے تاہم صوبائی حکومت نے پشاور کے حیات آباد موڑ پر باب پشاور کے نام سے فلائی اوور  تعمیر کیا تووہ بنفس نفیس اپنی صوبائی حکومت کے اتحادی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق صاحب کے ہمراہ اس پل کا افتتاح کرنے تشریف لائے اور اب وہ اس پل کو 180دن میں تعمیر کرنے صوبائی حکومت کے اس کارنامے پر پھولے نہیں سماتے۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دونوں ہی کے کارکن اس پل کی تعمیر کا کریڈٹ لینے میں ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کارکنان اسے محکمہ بلدیات کے سینئر صوبائی وزیر عنایت اللہ صاحب کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے  جبکہ تحریک انصاف اسے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب کے ویژن کا عکاس منوانے کی کوششوں میں جتی ہے۔ کریڈٹ کے حصول کی جنگ میں اس پل کی تعمیر میں ہونے والی سنگین مالی بے قاعدگی اور قواعد سے روگردانی کا 'کارنامہ' پس منظر میں چلا گیا ہے۔
قانون و قواعد کی رو سے حکومت اس امر کی پابند ہے کہ وہ عوامی وسائل کی ایک کوڑی بھی خرچ کرنے کے لئے 'کھلی نیلامی/بولی' کا طریقہ کار اپنائے گی جس کے تحت ہر مجاز فرد یا ادارہ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے اور حکومت ان میں سے کم ترین بولی دینے والے ادارے کو وہ ٹھیکہ دینے کی پابند ہے۔ حکومت کوئی بھی ٹھیکہ اپنے من پسند  فرد یا ادارے کو نوازنے کے لئے نہیں دے سکتی۔ مگر باب پشاور فلائی اوور کی تعمیر کی ٹھیکہ فوج کے ایک ذیلی ادارے این ایل سی کو تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیا گیا۔ متعلقہ شعبہ سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ اس پل کی تعمیر کے لئے دی جانے والی مبلغ ایک ارب 70کروڑ کی رقم حقیقی خرچ کا دو گنا ہے۔
کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس پل کو بلا ضرورت تعمیر کیا گیا ہے۔ اس چوک پر ٹریفک کو مسئلہ اتنا گھمبیر نہ تھا کہ اس کے حل کے لئے دو منزلہ فلائی اوور تعمیر کیا جاتا بلکہ شرقا" غربا”  تعمیر ہونے والی ایک زیر زمین گزر گاہ (انڈر پاس) جو صرف چند کروڑ روپے سے تعمیر ہو جاتی ، اس چوک کو سگنل فری بنا سکتی کر ٹریفک کا مسئلہ حل کر سکتی تھی۔ اس پل کے تعمیر سے صرف قریب میں تعمیر ہونے والے عسکری ادارے کے مجوزہ رہائشی منصوبے کی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
پل کی تعمیر ایک اچھا قدم ہے تاہم بہتر ہوتا اگر عمران خان صاحب یا صوبائی حکومت ان دو اہم معاملات کے حوالے  سے بھی پشاوریوں کی تشفی کروا دیتی۔

Saturday, January 30, 2016

جب تک تم کفر کا اعلان نہیں کرتے، ان کو قرار نہیں


اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے ایک لمبا عرصہ غار حراء میں عبادت کرتے اور اللہ کی بنائی کائنات پر غور و فکر کرتے گزارا۔ اللہ کے نبی کے غار حراء میں گزارے اس عرصے کو اولیاء اللہ نے تصوف کی بنیاد کے طور پر اپنایا ۔ انہوں نے تصوف کے مختلف سلسلوں نقشبندیہ، سہروردیہ، چشتیہ وغیرہ کی بنیادیں رکھیں۔ خانقاہیں قائم کیں، مراقبے کرنے اور اللہ سے لو لگانے کے مختلف انداز اختیار کیے۔ ہزارہا لوگ ان سلاسل سے منسلک رہے اور آج بھی دنیا بھر میں یہ سلسلے قائم ہیں۔ تصوف کے معلوم سلسلوں میں براعظم افریقہ کے طول و عرض میں قائم ہونے والا سنوسی تحریک کا سلسلہ سب سے بڑا اور ہمہ گیر مانا جاتا ہے۔ تیونس کے سید محمدابن علی السنوسی کی قیادت میں قائم ہونے والے اس سلسلے کی وسعت کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ سنوسیوں نے افریقہ کے طول و عرض میں چالیس ہزار سے زائد خانقاہیں قائم کی تھیں جنہیں زاویہ کہا جاتا تھا۔مصر، سوڈان، لیبیا، تیونس اور مراکش وغیرہ میں پھیلے اس حیران کن نیٹ ورک کی خاص بات یہ تھی کہ ہر خانقاہ کے ساتھ ایک مدرسہ، مسافروں کے لئے سرائے، پانی کا تالاب اور کھیلوں کا میدان جہاں تیغ زنی و نیزہ بازی کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے، قائم کئے گئے تھے۔ ان زاویوں کے ساتھ منسلک یا ان کے تربیت یافتہ افراد خالی خولی صوفی ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے اپنے وقت کی ایک بڑی طاقت اٹلی کو شمالی افریقہ کےطول وعرض میں ناکوں چنے چبوائے تھے۔ شمالی افریقہ کا عظیم مجاہد عمر مختار اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس نے سنوسی مجاہدین کے ہمراہ اٹلی کے خلاف ایک بے مثل جنگ لڑی تھی۔ جبکہ قفقاز و داغستان کا عظیم مجاہد امام شامل بھی نقشبندی سلسلے کا صوفی تھا۔ہندوستان و پاکستان کے طول و عرض میں دین اسلام کو پھیلانے والے بہاءوالدین زکریا ملتانی، خواجہ اجمیرچشتی، شیخ بختیار کاکی، شیخ احمد سہرہندی المعروف مجدد الف ثانی، داتا گنج بخش اور ان جیسے کئی دوسرے اولیاء کرام تصوف کے مختلف سلسلوں سے تعلق رکھتے تھے۔
جب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کریم نے نبوت سے سرفراز فرمایا تو انہوں نے مکہ مکرمہ کی ۱۳ سالہ زندگی میں دعوت و تبلیغ کے زریعے کفار مکہ کو دین اسلام کی طرف دعوت دی۔ چند خوش بخت و سعادت مند اس دعوت سے بہرہ مند ہوکر دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ٹھہرے اور ابوجہل جیسے بدبخت اس دعوت کی راہ میں روڑے ہی اٹکاتے رہے۔ نبی مہربان کی اس جدوجہد اور سنت کو تازہ کرنے کی بے مثال تحریک ۱۹۲۷ میں محمد الیاس کاندھلوی صاحب نے 'دعوت و تبلیغ' کے نام سے شروع  کی۔ یہ تحریک نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی ایک عظیم جدوجہد میں ڈھل چکی ہے۔ لاکھوں افراد اس تحریک سے وابستہ ہو کر دنیا بھر میں اسلام کے پیغام عظیم الشان کو عام کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے وہاں پر پہلی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی۔ مدینہ میں اسلام صرف تصوف و تبلیغ تک محدود نہ رہا بلکہ زندگی کے تمام شعبوں معاشرت، معاشیات، جہاد و قتال، بین الاقوامی وعلاقائی امور، انفرادی و اجتماعی معاملات الغرض ہر شعبہ زندگی کےلئے راہنما و حاکم قرار پایا۔ نبی مہربان  اور ان کے خلفاء نے اگلے ۳۰ سال تک اس نظام کو اس کی اصلی حالت میں قائم رکھا۔  وقت گزرتا رہا، خلافت، ملوکیت میں بدل گئی، ذاتی  پسند ونا پسند اسلامی قوانین و اقدار سے بالادست کر دی گئی اور اسلام کا حقیقی رخ فرقوں اور گروہوں کی ذاتی اقدار کی دبیز تہوں میں دب کر رہ گیا مگر تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسلام کی حقیقی تصویر کو زندگی کا نصب العین قرار دینے والے افراد یا گروہ موجود نہ رہے ہوں۔ امام احمد بن حنبل و امام شافعی سے شاہ ولی اللہ و مجدد الف ثانی تک ہزارہا داعیان اسلام ، اسلام کی بالادستی کی جدوجہد کرتے رہے۔ اسلام کے اس رخ کےلئے موجودہ وقت میں 'سیاسی اسلام ' کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ جمہوریت کے حسین نام سے موسوم دور جدید کے استعماری نظام کے اندر رہتےہوئےاسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کی بھی ایک لمبی قطار اور درخشاں تاریخ ہے۔ 'سیاسی اسلام' کے پیروکاروں کی سب سے بڑی تحریک عالم عرب میں پروان چڑھی جسے اخوان المسلمین کہا جاتا ہے۔اخوان المسلمین نے موجودہ جمہوری نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے عالم عرب کے کئی ملکوں میں کامیابی حاصل کی جن میں الجزائر، مراکش، تیونس، مصر، فلسطین وغیرہ شامل ہیں۔ ہند و پاکستان میں جماعت اسلامی اس 'سیاسی اسلام' کی سب سے بڑی علمبردار ہے تاہم اس خطہ میں دیوبند مسلک سے وابستہ جماعتیں بھی کم و بیش انہی نظریات کی علمبردار ہیں۔
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ۷۲ جنگوں میں بہ نفس نفیس حصہ لیا ۔ انہوں نے نہ صرف مکہ مکرمہ و طائف و حنین کو عظیم فوجی مہمات کے ذریعے فتح کیا بلکہ اپنے وقت کی عظیم ترین فوجی طاقت روم کے خلاف بھی ٢٤ ہزار کے جرار لشکر کی قیادت کی۔  یہ لشکر مدینہ سے نکلا اور اس وقت کی رومی سرحد کے قریب تبوک میں لنگر انداز ہوا۔ اگرچہ جنگ کی نوبت نہ آئی مگر اس لشکر کشی نے یہ ثابت کردیا کہ حجاز میں ایک نئی طاقت نمودار ہو چکی ہے جس کا سامنا کرنے کی جرات روم بھی نہیں کر سکتا۔  نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے اپنی تلوار کی طاقت سے دنیا کا نیا نقشہ بنایا تھا جس کے تحت اندلس سے چین تک ان کے مقابلے میں کوئی طاقت باقی نہ تھی۔فوجی طاقت کے ذریعے سے مسلمانوں کی بالادستی کے حصول کی جدوجہد ۱٤ سو سال میں کبھی بھی ماند نہیں پڑی ۔طارق بن زیاد، قتیبہ بن مسلم، عقبیٰ بن نافع اور یوسف بن تاشفین جیسے جری مجاہدوں نے ملک در ملک فتح کر مسلمانوں کی بالادستی کے جھنڈے گاڑے۔ اس سلسلے کی آخری کامیاب کوشش دیوبندی مکتبہ فکر کے پیروکاروں کی طرف سے افغانستان کی فتح تھی۔ اگرچہ ان کی کامیابی کا دورانیہ انتہائی مختصر تھا مگر انہوں نے یہ ثابت کیا فوجی قوت سے ملک آج بھی فتح کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہوا اگر ان کی حکومت گرا دی گئی، حکومتیں تو امام حسن و عبداللہ بن زبیر کی بھی گرائی گئی تھیں، حکومت تو عمر بن عبدالعزیز کو بھی نہیں کرنے دی گئی تھی، حکومت تو  امام شامل کی بھی گرائی گئی تھی،سنوسیوں کے زاویوں کو بھی بارود سے تباہ کیا گیا تھا، الجزائر و مصر کے اخوانی فاتحین بھی جیلوں میں قید کر دئیے گئے  ہیں اور جماعت اسلامی جندول میں الیکشن جیت کر بھی اپنے نمائندے کو ایم پی بنانے سے قاصر ہے۔
 پنجاب حکومت نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کر کے کون سا نیا کام کیا ہے۔ آپ لاکھ کہیں کہ ہمیں آپ کی حکومت سے کوئی سروکار نہیں ، آپ کی قومی و صوبائی اسمبلیاں و دفاتر بھی آپ کو مبارک ہوں، آپ کے پروٹوکول اور عوام کےٹیکس کی رقم پر کی جانے والی عیاشیوں پر بھی ہم لب کشائی نہیں کریں گے بس ہم تو صرف نماز روزہ اور اللہ و رسول کے بات کریں گے۔
ہرگز نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اللہ و رسول کی بات کریں اور ہم ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کر لیں۔ آپ بزور قوت تو اسلام نافذ  کرنے کے بارے میں سوچیں بھی مت، الیکشن جیت کر حکومت میں آنے کے خواب بھی ہرگز نہ دیکھیں ،آپ اللہ ورسول کے نام پر دی جانے والی نماز روزے کی دعوت سے بھی باز رہیں۔ ہمیں تو یہ بھی گوارہ نہیں کہ آپ اپنی خانقاہوں میں زیر لب اللہ اور اس کے رسول کا نام لیں۔ یاد رکھیں ہم تمہیں اس وقت تک چین سے نہ رہنے دیں گے جب تک تم کفر کا اعلان نہیں کرتے۔

Friday, January 22, 2016

Iran: The Rising Monster of Sassanid Dynasty

Lifting of UN sanctions have brought smiles on 80 million faces of people living on Iranian soil but without a doubt many living outside are worried about the future discourse of this hegemonic state. Iran, presently an average income country will be soon as rich as the Gulf States are. In the wake of lifting of sanctions Iran will be able to export 500,000 barrel of oil per day immediately without making any additional arrangements which can be increased to 1 million barrels per day by the end of this year. This huge export of oil will add an additional 30-40 billion dollars to Iranian economy each year. Apart from huge additional revenues by unleashing the oil flood, Iran will be able to export gas worth billions of dollars in a very short time. Iran, after Russia, has the second largest natural gas reserves in the World. This unmatched potential of energy resources gives leading edge to Iran over its regional counterparts. According to US Energy Information Administration, it is predicted that by the year 2030, Iran will be able to add 250 billion dollars of revenue to its economy.  This huge inflow of money will boost the Iranian economy to new heights. Thanks to two power hunger economic giants China and India, Iran doesn't need much effort to grab this money. As tweeted by Iranian President Hassan Rohani in the eve of lifting of sanctions, "our friends are happy and foes don’t need to be worried" but it’s not possible for foes to stop worrying. For an instance, the Israeli Prime Minister has expressed his grave concern over liberation of Iran from sanctions. He has said now Iran will have sufficient money to fund Hezbollah and Hamas. Both of them will have more sophisticated weaponry and sufficient resources to recruit 'terrorists' against Israel and State of Israel will be in deep trouble. 
If it would have been true or limited to Israel only, Muslim World was at peace rather much pleased but it is not as such. Iran, to the  best of my understanding, will have little attention towards Israel. Iran will also try to forget its enduring slogans of 'مرگ بر اسرائیل ' or 'مرگ بر امریکہ'. I believe Iran will focus to take its relations with India, Russia and China to new peeks. I also believe that Iran will emerge as much humble and responsible state with respect to Western World but, God forbid, Iran will be more furious towards lands which were once ruled by Sassanians. 
Before the rise of Arabs, the World was known to only two super powers The Romans and The Persians/Iranians under Sassanian rulers. Arab General Saad bin Abi Waqas defeated one of the greatest Sassanian warriors Rustam, in the bettal of Qadsiyyah in the year 636 breaking the backbone of Sassanian empire. After Qadsiyyah Sassanian could confront Arabs only at Nahawand in 641 where they faced the final defeat. The last emperor of Sassanid dynasty Yazdegard-III died in exile in China around 653. His death officially marked the end of the Sassanid royal lineage and empire.The following map shows the regions once ruled by the Sassanians.  According to this map, Persian rule was extended from Russia to Africa on one side and from present day Pakistan to Basphorus Trait on the other hand. Excluding todays Saudi Arabia, whole of Gulf was also part of this huge empire.
Persians have seen such glory neither before Sassanians nor after them. After the Sassanians Iranian were ruled by Abbasids, Ummayads, Turks, Mongols and others, time to time. Persians remained subordinate to many but they never forget the magnificence of their glorious past. They were always struggling for the revival but couldn't succeeded till the arrival of Shah Ismail who not only founded Safavid dynasty but also provided patronage to Shiaism. In order to have an ideological and religious backing as the Ottomans were having in form of Islam, he sponsored and promoted Shiaism as 'Shia Islam'. Shah Ismail and his successors tried to create new epicenters for Shiaism by design. In Islam Makkah and Madina are sacred cities, they tried to gave Karbala such status. Instead of Muhammad (peace be upon him) and his companions Safavids tried to symbolize Hazrat Ali and Hazrat Hussain. They introduced new concept of Imams in the religion in the wave of making their own heroes. They modified popular understandings of Islam as per design which suited them better. But despite of all their efforts they could hardly managed to convince a minor segment of Muslims towards their version of Islam. Safavid seized wast lands in North and South of present day Iran and established huge empire. Shiaism provided them incomparable support but they couldn't make it matching with Sassanid dynasty in any way. They remained in power till Qajar ended their rule after a civil war. Qajar and after them Pehlvi also tried to follow footsteps of their predecessor emperors to gain the lost glory of Sassanids on the hands of Arabs but could't succeeded. Every ruler of Iran had an imagination of restoring the lost glory of  Persian Empire. In this race of glorifying their past the last king of Iran Raza Shah Pehlvi crossed all limits. He after a decade long preparations in 1971, started celebrations of 2500 years of Persian Empire. Arabs and Sunni Muslims around the World happily and proudly associate themselves with the emergence of Islam in 521 but Iranians are having a total contrary feelings. They proudly call themselves sons of Cyrus who some 2500 years ago founded the Persian Empire in Persipolis near present day Iranian city of Shiraz. 
In 1979 religious tyrants successfully toppled the Shah's regime in a popular 'Islamic Revolution' and turned Iran into an 'Islamic Republic'. Government changed, people in power replaced and nature of statehood converted to an altogether new form but believe me, frame of Persians mind of having renaissance of Sassanid dynasty haven't changed at all. There is a paradigm shift in their approach. They do realize that conquering Turkey, Pakistan, Afghanistan, Armenia and Azerbaijan and even Bahrain and Yemen is not possible militarily nowadays so way not try to conquer them ideologically. Yes, they are doing this now. Since 1979 the World has seen totally changed Shias across the World. They are having enough funding, technical and moral support as well as military trainings as and when required from Iran. This Iranian support has successfully turned many peaceful lands into war zones. Unfortunately most of lands once part of Sassanid dynasty are inhabited by Muslims nowadays therefor Iran never hesitates to join hands even with Hindus and Jews against Muslims living on these lands so that they can be once again integrated into greater Persian empire. With or without help of intruders, Iran has successfully established Shia rule in Iraq. Iran has deployed her regular army alongside Hezbollah in Syria to protect Shia regime of Bashar ul Asad while Lebanon is already under the control of Shia militia Hezbollah. Iran has supported Hothies Shias who successfully toppled the Muslim rule of Abd Rabbu Hadi Mansoor in Yemen. Iran is igniting fire against Sunni rulers of Bahrain where the population of Shias is in majority. Iran is encouraging centrifugal forces in Eastern province of Saudi Arabia and Nigeria. Yes, these all lands are away from Pakistan and we can indulge in conspiracy theories but what Iran is doing in Kurram Agency, Gilgit Baltistan and Baluchistan is not impossible to verify. Few months back it was reported in media that militants have stormed a bus near Herban town in Kohistan districts and killed all 16 passengers of the bus. The bus was heading to Gilgit. The actuality of this incident is restricted to very few. It is widely believed that these passengers were returning from Iran after having military training and their objective was to fuel the fire in Gilgit Baltistan area and this killing occurred on the hands of state agencies who knew about them. It may be much surprising for many across the country but it is a truth that Parachinar has become a 100% Shia territory now where not a single Muslim is allowed to live. Muslims of Hangu and surrounding areas of Parachinar believe that the weaponry Shias of Parachinar having is sufficient to combat a military offensive even.
This all happened when Iran was paralyzed by the UN sanctions. Till Jan 17, 2016 Iran was having a limited access to international markets. Her assets outside the country were seized and she was having a very little space to survive. But now the situation is changed. Sanctions have become the story of the past. Iran is flexing her muscles now. Additional income of 250 billion dollars will surely provide this wicked state with sufficient energy to destroy the peace of Muslim world, if any and fulfill the dream of renaissance of Sassanid dynasty. 
Once upon a time there were Romans and Persians only. Romans are there again in the shape of Western World. Iran will try her level best to bring the Persians at parallel to them. 
Muslims around the world don't have any objection on it but they are afraid to pay the cost. In the wake of lifting of sanctions from Iran, the world will have much cheaper oil, may be of 25$ a barrel only but the regions once part of Sassanid dynasty will bear the flames of blazing fire ignited by Iran as an attempt to revenge the defeat on hands of Arab General Saad bin Abi Waqas and restore the lost glory of the past.