Search This Blog

Tuesday, October 10, 2023

احتساب یا انتقام ------- Accountability or Revenge

 

فواد حسن فواد کا کیرئیر کسی بھی سول سرونٹ کا خواب ہو سکتا ہے ۔ اپنے کیرئیر کے عروج میں وہ  فی الحقیقت پاکستانی نظام کے سیاہ و سفید کے مختار رہے اور وزیر اعظم کے سیکرٹری کی حیثیت سے کم و بیش3سال تک انہوں نے ملکی نظام  کی بھاگ دوڑ سنبھالے رکھی مگر  ان کا شاندار کیرئیر ایک دردناک انجام کا شکار ہوا ۔آشیانہ ہائوسنگ سکیم میں ناجائز اثاثہ جات بنانے کے الزام میں  نیب نے انہیں گرفتار کیا تاہم  عدم ثبوت کی بنا پر عدالت نے انہیں بری کر دیا تاہم انہیں بغیر جرم ثابت ہوئی کئی سال جیل میں گزارے۔ فواد حسن فوادنے ، ان کے خاندان نے اور  ان کی گرفتاری کے تناظر میں بالعموم سول سرونٹس نے جس بے چارگی کا سامنا کیا وہ دردناک بھی ہے اور قابل فکر بھی۔ فواد حسن فواد آج کل  مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر  اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی و نا انصافی کا رونا روتے نظر آتے ہیں ۔

وہ یقیناً ہمدردی  کے مستحق ہیں  اور ریاست کی  (اگر  وہ کوئی وجود  رکھتی ہے تو)  ذمہ داری ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرے۔ مگر ان سے گلہ یہ ہے کہ جب وہ پاور کوریڈورز کے مکین تھے  تو انہوں نے  احتساب کے نافذالعمل نظام کو بہتر کرنے ، احتساب کو انتقام

  میں بدلنے  سے روکنے اور احتساب کو انصاف کے ساتھ سرانجام پائے جانے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ، جو وہ باآسانی کر سکتے تھے اور ایسا کرنا ان کی ذمہ داری بھی بنتی تھی۔ انہوں نے ایسی کوئی بھی کوشش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی  قانونی طور پر ایسا انتظام ترتیب دیا جائے کہ ملک میں  احتساب ، انتقام نہیں بلکہ ایک قانونی عمل کے طور پر  پورے انصاف کے ساتھ عمل پذیر رہے۔

سنگاپور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر" جان کو وا "کو پبلک سیکٹر میں احتسابی نظام  کے حوالے سے پوری دنیا میں  اتھارٹی تسلیم کیاجاتا ہے ۔ وہ اپنے  ریسرچ پیپر " ایشیا پیسیفک ممالک کی انٹی کرپشن ایجنسیاں: کارکردگی   اور چیلنجز کا تجزیہ  (شائع شدہ ۲۰۱۷) میں ایشیائی ممالک کی انسداد بدعنوانی کی  ذمہ دار ایجنسیوں کا  موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کسی  بھی اکائونٹبلٹی رجیم  کو    فلپائن کے" آفس آف دا امبڈسمین "کی طرح " کاغذی شیر"  نہیں ہونا چاہیے  جس کے پاس ضروری وسائل اور اختیار ہی  نہ ہوں اور نہ ہی اسے پاکستان کے" نیب "کی طرح حکومت کے سیاسی مخالفین کے خلاف  "حملہ آور کتا" ہونا چاہیے،  جو کسی نظام کے تحت نہیں بلکہ حکومت وقت کے احکامات کے تحت کام کرتا ہو اور نہ ہی اسے  جنوبی کوریا کے "انٹی کرپشن و سول رائٹس کمیشن" کی طرح  ضروری قانونی پشت پناہی سے محروم  ایک غیر مئوثر ادارہ ہونا چاہیے کیونکہ  ایسی کوئی بھی صورت اس ادارے کو ناکامی سے دوچار  کر دے گی اور وہ احتساب کے قانونی عمل کو  انصاف کے ساتھ سر انجام نہیں دے سکے گا۔ 

سنگا پور اور ہانگ کانگ کے احتساب کے نظام کو پوری دنیا میں آئیڈیل نظام مانا  جاتا ہے جن کی تشکیل کے پیچھے "جان کو وا "جیسے روشن  دماغوں کی عشروں کی محنت کار فرما ہے۔ یہی صاحب اپنے ایک دوسرے ریسرچ پیپر "  کرپشن کا مقابلہ سنگاپوری سٹائل میں: ایشیائی ممالک کے لئے سبق" (شائع شدہ ۲۰۰۷) میں لکھتے ہیں کہ پولیس  کسی بھی طور پر  انسداد رشوت ستانی  کا موثر آلہ نہیں بن سکتی کیونکہ پولیس کے  ماہئیت   احتساب جیسے وسیع  ، ہمہ گیر اور صبر طلب عمل کے لئے تشکیل نہیں پائی ہوتی  ۔ اس لئے کسی بھی نظام احتساب کو پولیس سے پاک ہونا چاہیے ۔وہ  اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ احتساب کے نظام کو سیاسی اثر و رسوخ سے بھی کلی طور پر آزاد ہونا چاہیے تاکہ  وہ نظام کسی کو دشمن یا دوست نہ مانے بلکہ احتساب کے عمل کو  میرٹ پر ترتیب  دے ۔

نیب  سول بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے لئے ایک خوف کی علامت ہے  تاہم سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ نیب کا کام کرنے کا طریقہ کار  'پسند ناپسند پر مبنی (من مانا) ہے'،   ' ایک جیسے کیسوں میں امتیازی سلوک  کرتی ہے " ، "ثبوت سے پہلے ہی ملزم کو مجرم گردانتی ہے" ،  "مجرموں کے ساتھ عدالت سے بالا بالا ڈیل (پلی بارگین) کرلیتی ہے"،" زیر حراست افراد کے ساتھ نامناسب سلوک کرتی ہے" اور  "اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرتی ہے"۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے ایک سرکاری محکمے کے بارے میں دئیے گئے یہ ریمارکس   اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ احتساب کا نظام، انصاف کے ساتھ سرانجام نہیں دیا جا رہے  بلکہ اسے انتقامی طور پر انجام دیا جاتا ہے ، یا پھر کم از کم ایسا تاثر ضرور قائم ہے۔

فواد حسن فواد صاحب جیسے ذمہ دار افراد احتسابی نظام کی بہتری کے لئے  جب کوئی کردار ادا کر سکتے تھے تو انہوں نے شاید نا دانستہ طور پرایسی  کوئی کوشش نہیں کی اور بالآخر خود بھی انتقامی احتساب کا شکار ہوئے اور احد چیمہ جیسے اپنے کولیگز کو بھی اس کا شکار ہوتے دیکھتے رہے ۔کیا یہ معاشرے کے ہر ذمہ دار فرد  کی اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری  نہیں کہ وہ احتساب کے نظام کو ، خواہ وہ نیب کا  نظام احتساب ہو یا پھر انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ کا،   سیاسی  اور پولیس کے اثر ورسوخ سے آزاد کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ احتساب ،انتقام نہیں بلکہ ایک قانونی  اور منصفانہ عمل  ہو۔  ایسی  قانون سازی کروائی جا سکتی ہے کہ انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ صحیح معنوں میں شفاف احتساب کا ایک مئوثر  ادارہ بن سکے اور نیب کا بھی نہ صرف دائر کار بلکہ  اس کے عمل کا طریقہ کار بھی واضح  اور شفاف ہو جو انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو تاکہ  کسی بھی فرد کے ساتھ ، اس کا جرم ثابت ہونے سے پہلے یا بعد ، ذیادتی نہ ہو سکے۔

پوری دنیا میں آئیڈیل نظام احتساب کے چند بنیادی خواص پر  اتفاق پایا جاتا ہے ۔

پہلا یہ کہ نظام احتساب   انتظامی اور مالی  طور پر خودمختاری کا حامل ہو۔

دسرا یہ کہ نظام احتساب  پولیس سے پاک اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہو۔

تیسرا یہ کہ وہ مرکزیت کا حامل نہ ہو بلکہ علاقائی ،  سیکٹورل اور  جرائم کی نوعیت کے اعتبار سے  ڈیوالوڈ  /منقسم ہو   مثلاً  برطانیہ کا " سیریئس  فراڈ آفس" جو صرف ایسے جرائم ہینڈل کرتا ہے جن کی مالیت ڈیڑھ ملین ڈالر سے زائد  ہو  یا پھر  ان کی نوعیت علاقائی یا بین الاقوامی  ہو، تاکہ احتسابی نظام کے لئے بھی احتسابی نظام موجود ہو۔

اور سب سے اہم یہ کہ اس میں کسی کو بھی کسی قسم کا  استشناء حاصل نہ ہو جیسے پاکستان میں فوج اور عدلیہ کو   یہ استشناء حاصل ہے۔

یہ  ایک حیران کن امر ہے کہ  ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پچھلے دس سال کی رپورٹس کے مطابق) ، محکمہ پولیس  ،  جو عدلیہ اور ٹھیکیداری نظام کے ساتھ کرپٹ ترین محکمہ کی دوڑ میں شامل ہے،  اس وقت نہ صرف خیبر پختونخوا میں  انسداد رشوت ستانی  کے محکمے کی اساس بنا ہوا ہے بلکہ نیب اور باقی صوبوں کی  انٹی کرپشن ایجنسیز پر کنٹرول قائم کئے ہوئے ہے۔   خیبر پختونخوا میں اگر چہ اس  محکمہ کا سربراہ ایک سول افسر ہے مگر تمام ورک فورس  پولیس  پر مشتمل ہے۔  2018کے ڈیٹا کے مطابق، خیبر پختونخوا  انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو   2014سے 2018 کے عرصہ میں کل  16 ہزار 1 سو28  شکایات موصول ہوئیں جن میں سے  صرف 88شکایات محکمہ پولیس کے خلاف تھیں۔ ان 88میں سے بھی صرف 13شکایات پر انکوائری کی گئی تاہم  ان  انکوائریز  کا حتمی نتیجہ کیا نکلا، یہ ایک سربستہ راز ہے۔ اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ  انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کس قسم کی انسداد بدعنوانی انجام دے رہا  ہے۔  یہی حال نیب کا بھی ہے ، جہاں ڈی جی کی سطح تک پولیس افسران  کی تعیناتی کی جارہی ہے جبکہ یہی افسران گریڈ ۱۸ تک کی پوسٹوں پر پولیس افسران کی تعیناتی کے لئے اپنا اثر و نفوذ استعمال کرتے ہیں۔ فوج  اور عدلیہ کو قانون کے ذریعے استشناء دیا گیا  ہے جبکہ  پولیس (بالخصوص افسران)   اپنے اثر و نفوذ  اور کچھ مخصوص قانون سازیوں کی وجہ سےکسی بھی قسم کے احتساب سے  استشناء حاصل کر چکی ہیں ۔  اس صورتحال میں احتساب کے لئے سول محکمہ جات اور مخالف سیاسی جماعتیں بچ جاتی ہیں جن کا احتساب، مندرجہ بالا صورت حال میں، اگر قانون کے مطابق بھی ہو رہا ہو تو احتساب نہیں انتقام ہی نظر آئے گا۔

معاملات کو ایسا ہی چلتے رہنے دینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی!!  فیصلہ ساز ادارے ( پارلیمنٹ و عدلیہ ) اور محکمے (فوج و پولیس )  ایسا ہی چاہیں گے کہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ ہو اور ان کے جرائم کا بوجھ بھی سول سرونٹس اور سیاستدانوں کے کندھوں پر لدا رہے  مگر انتقامی احتساب کا شکار  اور منصف مزاج سیاستدانوں کی  ذمہ داری ہے کہ  ایسی قانون سازی کروائی جائے کہ  احتساب کا عمل ایسے ادارے سرانجام دیں جو؛

   مالی و انتظامی طور پر  مکمل خود مختار  ہوں،

جن کی افرادی قوت اعلیٰ درجہ کی پیشہ وارانہ تربیت  کے حامل سویلین  افراد پر مشتمل ہو

علاقائی،  سیکٹورل اور جرائم کی نوعیت کے اعتبار سے   کام کریں

اور  ان اداروں سے کسی کو بھی استشناء حاصل نہ ہو۔  

تب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ احتساب ایک قانونی عمل کے طور پر انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام پائے گا، ورنہ احتساب کو انتقام بننے سے کون روک سکتا ہے۔