Search This Blog

Thursday, January 1, 2015

Lighting of candles as a sign of mourning

یا اقوال زریں کی کتاب(Proverbs of Solomon)اقوال سلیمان
انجیل عبرانی کے سلسلے کی دوسری کتاب ہے۔(The Book of Proverbs) 
 یہودیت میں اس کتاب کو وہی حیثیت حاصل ہے جو یہودیت کی باقی کتابوں 'تناخ'،'توریت'، یا 'انبیاء' وغیرہ کو حاصل ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ان میں سے کون سی کتاب الہامی ہے  یا کس کتاب میں یہودی ربیوں نے کس طرح کی تجاوزات کی ہیں،یہودیت کی بنیاد ان ہی کتب پر رکھی گئی ہے۔  اقوال سلیمان میں منقول ہے''انسان کی روح خدا کی جلائی ہوئی شمع یا موم بتی ہے"۔(اقوال سلیمان 20-22)
وکی پیڈیا انسائیکلو پیڈیا کے مطابق 1995میں یہودی وزیر اعظم اضحاک رابین کو ایک شدت پسند یہودی یگال عامر  نے تل ابیب میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یگال عامر، جو آج کل عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے، دراصل اضحاک رابین کی طرف سے کئے گئے اوسلو معاہدے کے خلاف تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امن معاہدہ کیا جائے۔
Kings of Israel Square
 میں وقوع پزیر ہونے والے اس واقعہ پر پورے اسرائیل سے نوجوان جمع ہوئے اور اضحاک رابن کی یاد میں ہزاروں موم بتیاں روشن کر کے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ 
کسی کے ماتم پر موم بتیاں روشن کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ یہودی یہ عمل بہت پہلے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی شروع کر چکے تھے۔ جرمنی سے بھاگ جانے والے یہودیوں نے پوری دنیا میں ہولوکاسٹ کے خیالی قتل  عام کی خوب تشہیر کی۔ چونکہ یورپ ہٹلر کی طرف سے دہکائی گئی جنگ کی بھٹی میں جل رہا تھا اور ہٹلر کے خلاف نفرت عام و خاص میں رچ بس گئی تھی اس لئے یہودی بغیر کسی حیل و حجت کے ہولو کاسٹ کا خیالی قتل عام یورپی عوام کے ذہنوں میں بٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔ یورپی ممالک میں قیام پزیر اور باہر سے ہجرت کر کے آنے والے یہودیوں نے یوم ہاشوہ 
 کے موقع پر اپنے اپنے گھروں میں شمعیں روشن کر کے(Holocaust Remembrance Day)
 اپنے ان مرحومین کو یاد کیا جو مبینہ طور پر ہٹلر نے قتل کر دئیے تھے۔ چونکہ یہودی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ ہر شخص خدا کی جلائی ہوئی شمع ہے اس لئے ہر مقتول کے لئے شمع روشن کر کے اسے یاد کیا جائے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپ میں یہودیوں کا اثرورسوخ بھی بڑھتا گیا اور ہولوکاسٹ کے قتل عام کے ڈھنڈورے کا شور بھی جس نے عام یورپی لوگوں کو یقین دلا دیا کہ واقعی ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس اثر کے تحت یہودیوں کے ساتھ ساتھ عیسائی بھی یک جہتی کے طور پر یہودی مقتولین کی یاد میں موم بتیاں روشن کرنے  لگے۔ 
یوم ہاشوہ پر روشن کےلئےپیلے رنگ کی ایک خاص موم بتی تخلیق کی گئی ہے جسے 'یزکور' کہا جاتا ہے۔
یزکور روشن کی جانے والی واحد شمع نہیں۔ یہودیوں نے ہر موقع کی  مناسبت سے روشن کرنے کے لئے موم
بتیاں بنائی ہیں۔ عام طور پر اپنے مرنے والے کی یاد میں یہودی جس شمع کو ہر برسی پر روشن کرتے ہیں اسے 'یاہرٹزیت' کہا جاتا ہے جس کو لغوی مطلب 'شمع روح' ہے 
یوم کپور یہودیوں کا اہم ترین مذہبی تہوار ہے جس کی اہمیت مسلمانوں کی عید الفطر سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ اس موقع پر بھی یہودی اپنے مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کرتے ہیں۔ بعض ایسی موم بتیاں بھی ہیں جو ٢٦گھنٹے تک کے لئے روشن رہتی ہیں۔ مرحومین کی برسی کے موقع 
پر ایسی ہی شمع روشن کی جاتی ہے۔یہودی اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے مرنے کا سوگ ۷ دن تک مناتے ہیں جسے 'شیوا' کہا جاتا ہے۔ ان پورے سات دنوں میں مرحوم کے گھر پر تمام رشتہ دار جمع رہتے ہیں اورمرنے والے کی یاد میں 'یاہرٹزیت' موم بتی روشن کی جاتی ہے۔

یہودیت میں 'ہنوکا' کے نام سے ایک آٹھ روزہ تہوار منایا جاتا ہے جسے عموما روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔ اس تہوار میں روشن موم بتیاں رکھنے کے لئے ایک خاص قسم کا شمع دان استعمال کیا جاتا ہے جسے 'مینورہ' کہا جاتا ہے۔ 'مینورہ' کے مرکزی سٹینڈ سے جسے 'شماش' کہا جاتا ہے، آٹھ شاخیں نکلتی ہیں۔ ہر گزرنی والی رات کو ان
میں سے ایک شاخ پر رکھی موم بتی روشن کر دی جاتی ہے اور یہ سلسلہ آٹھ راتوں تک چلتا ہے۔
ڈیوڈ بن گوریان کو جدید اسرائیل کا بانی سمجھا جاتا ہے جو اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم بھی تھا۔ اس کے مقبرے کو آج بھی 'یاہرٹزیت' موم بتیوں سے ڈھکا دیکھا جا سکتا ہے۔ ریاست اسرائیل کے معماران میں ڈیوڈ الازر اور جوناتھن نیتن یاہو کی خدمات نمایاں ترین ہیں۔ ان کے ساتھ باقی وہ سب بھی جنہوں نے اسرائیل کے لئے اہم خدمات انجام دی ہیں، اپنی قبروں کے سرہانے ایک 'یاہرٹزیت' موم بتی روشن پاتے ہیں جسے ریاست  روشن رکھنے کا اہتمام کرتی ہے۔  جس جگہ پر اضحاک رابین کو قتل کیا گیا تھا وہ جگہ ہر وقت پھول اور موم بتیوں سے ڈھکی رکھی جاتی ہے۔
یہ ہے وہ یہودی روایت جسے مغرب نے یہودیوں سے مستعار لیا اور آج مغربی ممالک میں بھی اپنے مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔
اس سارے قصے میں ہم کہاں فٹ ہوتے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی پیروی یقینا سول سوسائٹی اور غیر سرکاری تنظیموں کے نام پر مغربی فنڈز ہڑپ کرنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے کاسہء لیسوں کی اولین ترجیح رہتی ہے۔ ان کی طرف سے مرحومین کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کا عمل تو بات سمجھ میں آتا ہے مگر یہی کام اگر ہر کس و ناکس عقیدت کے جذبات کے ساتھ، اپنے مسلمان فوت شدگان کے مغفرت کے لئے کر تواسےکیا کہیں؟
(اس تحریر کے کوئی کاپی رائٹ نہیں۔۔ یاسر عمران)