Search This Blog

Sunday, December 25, 2011

!!مستقبل تو اسلام کا ہے

Picture1
جب۱۹۹۲ء میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے الجزائرمیں ہونے والے انتخابات میں ۸۰فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر کے فیصلہ کن برتری حاصل کی تو پوری دنیا کے معاملات کو اپنی مرضی و منشاءکے مطابق چلانے کی شیطانی آرزوں میں جکڑے استعمار کے سینے پر سانپ لوٹ لوٹ گئے ۔ ان کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ہو گئیں اور تمام شیطانی قوتیں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں کہ کیسے اس شمع کو گل Islamic_Salvation_Front_logoکیا جائے جو دنیا بھر پر ان کے مسلط کردہ اندھیروں کو منور کرنے کے لئے الجزائر کے صحرائوں کی کوکھ میں جل اٹھی ہے۔ جمہوریت جمہوریت کا سریلا راگ الاپنے والے امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ان کے ہمنوا اس امر پر متفق ہوگئے کہ الجزائر کے ‘بےوقوف’ لوگوں نے ان کے لئے جو درد سر تخلیق کر ڈالا ہے اس ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سالوں سے ان کی پروردہ الجزائری فوج کو نمک حلالی کا حکم دیا جائے۔ بدقسمت پاکستانی فوج کی طرح الجزائر کی افواج بھی امریکی امداد اور خیرات کی افیون کا شکار تھیں۔ انہوں نے اپنے پالنہاروں کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے عوامی رائے کی گردن پر مارشل لاء کا خنجر چلا ڈالا ، ملک کے ۸۰فیصد عوام کے ووٹوں کا اعتماد حاصل کنے والی اسلام پسند جماعت اسلامک سالویشن فرنٹ کو خلاف قانون قرار دے دیا اور سالوں سے مشنری جذبے کے ساتھ اپنے عوام کی خدمت میں جتے اسلام پسندوں ان تاریک کوٹھڑیوں کا مکین بنا دیا جہاں سے جسم نہیں روح ہی واپس نکلا کرتی ہے۔ یہاں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ فرنٹ کے تمام ہمدردوں اورحامیوں کو چن چن کر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ فرنٹ کی حمایت کا دم بھرنے والے گائوں کے گائوں ملیامیٹ کرنا شروع کر دئیے، سینکڑوں لوگوں کو دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کر کے رکھ دیا۔ جب جیلوں میں bouteflika گنجائش ختم ہو گئی تو صحرائوں میں ڈیٹنشن کیمپ قائم کرکے، الجزائر کے آمر عبدالعزیز بوتفلیکا نے اسلام پسندوں کے ساتھ وہ ظلم بھی کر ڈالے جو شاید سالوں پہلے الجزائر پر قابض فرانسیسی فوجوں نے بھی نہ کئے تھے۔ ستم تو یہ کہ الجزائری فوج نے دھڑلے سے اس تمام قتل و غارت گری اور ظلم و تشدد کا ذمہ دار بھی اسلام پسندوں کو ٹھہرایا جبکہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئین اور آزاد میڈیا منہ میں گھنگھنیاں ڈالے خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ اکثر تو فوج کے ڈھائے گئے مظالم کو اسلام پسندوں کے کھاتے میں ڈالنے کے قبیح جرم کے مرتکب بھی ہوئے۔ ان بدبختوں کا یہ خیال رہا ہو گا کہ الجزائریوں کی آواز شاید نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے اس پر کون کان دھرے گا مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ صرف الجزائر کے باشندوں کی آواز تو نہیں بلکہ یہ وہ صور اسرافیل ہے جس نے بج اٹھنے کے بعد کائنات کے گوشے گوشے تک میں گونج اٹھنا ہے۔ استعماری طاقتیں الجزائر میں کچھ حد تک کامیاب ہو گئیں اور انہوں نے اسلام کے نام پر اٹھنے والے تحریک کو کچھ عرصے کے لئے دبا دیا مگر ان عقل کے اندھوں کو اس بات کی سمجھ کیسے آئے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کر کے بس یوں ہی تو نہیں چھوڑ دیا کہ شیطان اور اس کی ذریات اس میں جس قسم کا شیطانی کھیل کھیلنا چاہیں، کھیلتی رہیں۔
الجزائر کے بعد ترکی وہ دوسرا ملک تھا جہاں استاد نجم الدین اربکان کی قیادت میں اسلام پسندوں نے کامیابی کی جھنڈے گاڑے۔ یہاں پر بھی مغرب کی Erbakan کاسہء لیسی کا دم بھرنے والی ترک افواج نے اسلام پسندوں کا جینا حرام کئے رکھا مگر استاد اربکان کے ہونہار شاگردوں نے عبداللہ گل اور رجب طیب اردگان کی قیادت میں حکمت و دانائی کی مرقع وہ شاندار پالیسیاں اپنائیں کہ شیطانی ذریات اپنی تمام چوکڑی بھول بھال کر دم سادھے بیٹھی ہیں۔ عوامی قوت کے شاندار استعمال سے ترک اسلام پسندوں نے نہ صرف اپنے ملک سے شیطانی طاقتوں کا جنازہ دھوم دھڑکے سے نکال دیا ہے  بلکہ دنیا بھر کے اسلام پسندوں کے دلوں میں امید کی نئی جوت بھی جگا دی ہے۔  مسجدوں کے میناروں کو اپنے نیزے اور گنبدوں کو مورچے قرار دینے والے رجب طیب اردگان نے اپنے آپ کو اتنا شاندار منتظم ثابت کیا ہے کہ صرف ۹ سال قبل دیوالیہ پن کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ترکی آج انہدام کے خطرے سے دوچار یورپی یونین کو بیل آئوٹ کرنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ اس وقت ترکی دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی پہلی تین معیشیتوں میں سے ایک ہے اور یہ امید کی جارہی ہے کہ ترکی ۲۰۲۰ میں دنیا کو آٹھویں بڑی معیشت بن چکا ہو گا۔
عرب سپرنگ یا بہار عرب کا آغاز تیونس سے ہوا تو سالوں تک استعماری طاقتوں کا کاسہء لیس تیونس کا آمر حبیب بو رقیبہ اس کا پہلا شکار بنا۔ شیطانی طاقتوں کے  سرخیل امریکہ کا خیال رہا ہو گا کہ اب وہ نام نہاد جدیدیت پسندوں کی حمایت کر کے ان سے وہی کام لے گا جو چوبیس سال تک حبیب بو رقیبہ اس کے لئے انجام دیتا رہا ہے مگر امریکہ کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ سولہ سال کی جلاوطنی کاٹنے والا تیونس کا اسلام پسند راہنما راشد الغنوشی تیونسیوں کی 506802493امیدوں کا مرکز و محور قرار پایا۔ حبیب بورقیبہ کی رخصتی کے بعد تیونس کی سرزمین پر راشد الغنوشی کا ایسا استقبال ہوا کہ دنیا دنگ رہ گئِ ۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہو گا کہ سولہ سال کی طویل جلاوطنی کے بعد بھی کم گو اور نرم خو راشد الغنوشی تیونس کے عوام میں اس قدر مقبول ہو گا۔ دنوں کے بات رہ گئی تیونس کے حسن البناء ، راشد الغنوشی کا دست راست اور النہضہ پارٹی کا سیکرٹری جنرل حمادی جبالی، جو پیشے کے لحاظ سے سولر انجنئیر  ہے، تیونس کی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے والا ہے۔
مراکش میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی وہی حیثیت ہے جو مصر میں اخوان المسلین یا پاکستان میں جماعت اسلامی کی ہے۔ یہاں کی صورت حال بھی Benkirane_crکم وبیش وہی ہے جس کا ذکر تیونس کے باب میں پہلے ہو چکا ہے۔ یقیناً یہ ایک حیران کن امر ہے کہ آخر ایسا کیا جادو چل گیا ہے کہ عرب و عجم میں مسلمانوں نے اپنا طریق حیات ہی بدلنے کو فیصلہ کر لیا ہے۔ مراکش کے عام انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے۶۰ ساٹھ فیصد ووٹ حاصل کر لئے  ہیں اور مراکش کا بادشاہ محمد ششم اس بات پر مجبور ہے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ عبد للہ ابن کیران کو ملک کے پہلے اسلام پسند وزیراعظم کے طور پر نامزد کرے کیونکہ مراکش  کے عوام نے اس کے لئے کوئِی دوسرا راستہ چھوڑا جو نہیں۔ شیطانی طاقتوں کے لئے یہ تازیانہ ہے کہ موسٰی بن نصیر اور طارق بن زیاد کا شمالی افریقہ ایک مرتبہ پھر اسلام کے دامن میں پناہ لےچکاہے۔
اب ذکر ہو جائے عالم عرب کے سب سے بڑے ملک عرب جمہوریہ مصر کا۔ اگرچہ انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی اس ملک ایک ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے اور فراعنہ مصر کے علاوہ بھی اس کی تعارف کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم جب سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت عمروبن العاص نے اسے پاپائے روم کے سائے سے نکال کر ملت اسلام کے جسم کا حصہ بنایا ہے تب سے آج تک اسلامی تاریخ میں اس کا ایک جداگانہ مقام ہے۔  ماضی قریب میں انورالسادت اور اس کے شاگرد رشید جمال عبدالناصر نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس ملک سے اس کی اسلامی شناخت چھین لی جائے اور اسے یا تو قدیم فراعنہ مصر سے جوڑ دیا جائے یا پھر حال کے رومن امپائر کا باجگزار بنا دیا جائے یا پھر عرب قومیت کے بت کی علامت بنا دیا جائے مگر حالیہ انتخابات کہ نتائج نے یہ hasan_al_bannaواضح کر دیا ہے عشروں تک اس کی قسمت سے کھلواڑ کرنے والے  فرعونوں جیسے حکمران ناکام رہے ہیں اورقاہرہ کے نواحی قصبے محمودیہ کے پرائمری سکول کا وہ ٹیچر کامیاب رہا ہے جس نے مصر کا ماضی، حال اور مستقبل اسلام کے ساتھ وابستہ کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ وہ استاد، امام حسن احمدعبدالرحمان البنا جسے عرف عام  میں حسن البناء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، تو اخوان المسلمین جیسی بے مثال تحریک برپا کر کے اپنے رب کے حضور سدھار گیا مگر جس شمع کو اس نے اپنے خون جگر سے  روشن کیا تھا آج پورا  عالم عرب اس کے نور سے جگمگ کر رہا ہے۔ مصر کے اسلام پسندوں نے شیطان کی امیدوں کے تمام محل مسمار کر ڈالے ہیں۔ سلفیوں کےساتھ مل ک اخوانیوں کے ووٹوں کی فیصدی ترکیب ۹۰ فیصد بنتی ہے جس دیکھ کر فراعنہ مصر کی ارواح پر تو جو گزری سو گزری مگر ماضی قریب میں اپنے آپ کو  فرعون قرار دینا والا حسنی مبارک، جس کا الشرم الشیخ میں پڑا  بے حس و حرکت جسم اپنے ڈاکٹروں کی مسیحائی کامحتاج ہے، بے کل ہو چکا ہے۔اس کی زندگی کے ٹمٹاتے چراغ کے لئے اخوانیوں کی کامیابی آندھی ثابت ہو رہی ہے اور جس دن کوئی اخوانی یا سلفی فرعون کے ساتھ وابستہ کردہ کرسی صدارت پر متمکن ہو گا،حسنی مبارک کی روح اس کے جسد کا پنجرہ توڑ کر فرعونوں کے ساتھ جا شامل ہو گی۔
اخوانیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مصر کا ماضی ہی نہیں حال اور مستقبل بھی صرف اسلام سے وابستہ ہے۔  مصر کی افواج وہ کردار ادا کرنے کی کوشش کر Hamas founder Sheikh Ahmed Yassin talks during an interview in Gaza March 9,2004.The Islamic militant group Hamas said on Tuesday a possible evacuation of Jewish settlers from Gaza would signal a victory for Palestinian militancy. . REUTERS/Suhaib Salem رہی ہیں جو الجزائر کی فواج نے کامیابی سے ادا کر دیا تھا اور ترک افواج اسے ادا کرنے میں ناکام رہی تھیں مگر مصری فوجوں کو یہ یاد رکھنا چاہئَے کہ نہ تو حسن البناء  الجزائر میں پیدا ہوا تھا اور نہیں ہی اخوان المسلمین ترکی میں قائم ہوئی۔
شیخ احمد یاسین کی ‘حماس’ اور اسماعیل ہانیہ کے فلسطین کا ذکر رہ گیا ہے مگر بات صرف الجزائر اور ترکی کی نہیں، بات تیونس، مراکش اور مصر کی بھی نہیں اور بات شام، یمن، لیبیا یا پاکستان کی بھی نہیں، بات صرف مسلم امہ کی بھی نہیں بالکہ بات تو پوری کائنات کی ہے۔ یہ تو ہو کر رہنا ہے کیونکہ مستقبل تو اسلام کا ہے صرف اسلام کا۔