Search This Blog

Sunday, December 25, 2011

!!مستقبل تو اسلام کا ہے

Picture1
جب۱۹۹۲ء میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے الجزائرمیں ہونے والے انتخابات میں ۸۰فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر کے فیصلہ کن برتری حاصل کی تو پوری دنیا کے معاملات کو اپنی مرضی و منشاءکے مطابق چلانے کی شیطانی آرزوں میں جکڑے استعمار کے سینے پر سانپ لوٹ لوٹ گئے ۔ ان کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ہو گئیں اور تمام شیطانی قوتیں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں کہ کیسے اس شمع کو گل Islamic_Salvation_Front_logoکیا جائے جو دنیا بھر پر ان کے مسلط کردہ اندھیروں کو منور کرنے کے لئے الجزائر کے صحرائوں کی کوکھ میں جل اٹھی ہے۔ جمہوریت جمہوریت کا سریلا راگ الاپنے والے امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ان کے ہمنوا اس امر پر متفق ہوگئے کہ الجزائر کے ‘بےوقوف’ لوگوں نے ان کے لئے جو درد سر تخلیق کر ڈالا ہے اس ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سالوں سے ان کی پروردہ الجزائری فوج کو نمک حلالی کا حکم دیا جائے۔ بدقسمت پاکستانی فوج کی طرح الجزائر کی افواج بھی امریکی امداد اور خیرات کی افیون کا شکار تھیں۔ انہوں نے اپنے پالنہاروں کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے عوامی رائے کی گردن پر مارشل لاء کا خنجر چلا ڈالا ، ملک کے ۸۰فیصد عوام کے ووٹوں کا اعتماد حاصل کنے والی اسلام پسند جماعت اسلامک سالویشن فرنٹ کو خلاف قانون قرار دے دیا اور سالوں سے مشنری جذبے کے ساتھ اپنے عوام کی خدمت میں جتے اسلام پسندوں ان تاریک کوٹھڑیوں کا مکین بنا دیا جہاں سے جسم نہیں روح ہی واپس نکلا کرتی ہے۔ یہاں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ فرنٹ کے تمام ہمدردوں اورحامیوں کو چن چن کر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ فرنٹ کی حمایت کا دم بھرنے والے گائوں کے گائوں ملیامیٹ کرنا شروع کر دئیے، سینکڑوں لوگوں کو دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کر کے رکھ دیا۔ جب جیلوں میں bouteflika گنجائش ختم ہو گئی تو صحرائوں میں ڈیٹنشن کیمپ قائم کرکے، الجزائر کے آمر عبدالعزیز بوتفلیکا نے اسلام پسندوں کے ساتھ وہ ظلم بھی کر ڈالے جو شاید سالوں پہلے الجزائر پر قابض فرانسیسی فوجوں نے بھی نہ کئے تھے۔ ستم تو یہ کہ الجزائری فوج نے دھڑلے سے اس تمام قتل و غارت گری اور ظلم و تشدد کا ذمہ دار بھی اسلام پسندوں کو ٹھہرایا جبکہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئین اور آزاد میڈیا منہ میں گھنگھنیاں ڈالے خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ اکثر تو فوج کے ڈھائے گئے مظالم کو اسلام پسندوں کے کھاتے میں ڈالنے کے قبیح جرم کے مرتکب بھی ہوئے۔ ان بدبختوں کا یہ خیال رہا ہو گا کہ الجزائریوں کی آواز شاید نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے اس پر کون کان دھرے گا مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ صرف الجزائر کے باشندوں کی آواز تو نہیں بلکہ یہ وہ صور اسرافیل ہے جس نے بج اٹھنے کے بعد کائنات کے گوشے گوشے تک میں گونج اٹھنا ہے۔ استعماری طاقتیں الجزائر میں کچھ حد تک کامیاب ہو گئیں اور انہوں نے اسلام کے نام پر اٹھنے والے تحریک کو کچھ عرصے کے لئے دبا دیا مگر ان عقل کے اندھوں کو اس بات کی سمجھ کیسے آئے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کر کے بس یوں ہی تو نہیں چھوڑ دیا کہ شیطان اور اس کی ذریات اس میں جس قسم کا شیطانی کھیل کھیلنا چاہیں، کھیلتی رہیں۔
الجزائر کے بعد ترکی وہ دوسرا ملک تھا جہاں استاد نجم الدین اربکان کی قیادت میں اسلام پسندوں نے کامیابی کی جھنڈے گاڑے۔ یہاں پر بھی مغرب کی Erbakan کاسہء لیسی کا دم بھرنے والی ترک افواج نے اسلام پسندوں کا جینا حرام کئے رکھا مگر استاد اربکان کے ہونہار شاگردوں نے عبداللہ گل اور رجب طیب اردگان کی قیادت میں حکمت و دانائی کی مرقع وہ شاندار پالیسیاں اپنائیں کہ شیطانی ذریات اپنی تمام چوکڑی بھول بھال کر دم سادھے بیٹھی ہیں۔ عوامی قوت کے شاندار استعمال سے ترک اسلام پسندوں نے نہ صرف اپنے ملک سے شیطانی طاقتوں کا جنازہ دھوم دھڑکے سے نکال دیا ہے  بلکہ دنیا بھر کے اسلام پسندوں کے دلوں میں امید کی نئی جوت بھی جگا دی ہے۔  مسجدوں کے میناروں کو اپنے نیزے اور گنبدوں کو مورچے قرار دینے والے رجب طیب اردگان نے اپنے آپ کو اتنا شاندار منتظم ثابت کیا ہے کہ صرف ۹ سال قبل دیوالیہ پن کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ترکی آج انہدام کے خطرے سے دوچار یورپی یونین کو بیل آئوٹ کرنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ اس وقت ترکی دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی پہلی تین معیشیتوں میں سے ایک ہے اور یہ امید کی جارہی ہے کہ ترکی ۲۰۲۰ میں دنیا کو آٹھویں بڑی معیشت بن چکا ہو گا۔
عرب سپرنگ یا بہار عرب کا آغاز تیونس سے ہوا تو سالوں تک استعماری طاقتوں کا کاسہء لیس تیونس کا آمر حبیب بو رقیبہ اس کا پہلا شکار بنا۔ شیطانی طاقتوں کے  سرخیل امریکہ کا خیال رہا ہو گا کہ اب وہ نام نہاد جدیدیت پسندوں کی حمایت کر کے ان سے وہی کام لے گا جو چوبیس سال تک حبیب بو رقیبہ اس کے لئے انجام دیتا رہا ہے مگر امریکہ کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ سولہ سال کی جلاوطنی کاٹنے والا تیونس کا اسلام پسند راہنما راشد الغنوشی تیونسیوں کی 506802493امیدوں کا مرکز و محور قرار پایا۔ حبیب بورقیبہ کی رخصتی کے بعد تیونس کی سرزمین پر راشد الغنوشی کا ایسا استقبال ہوا کہ دنیا دنگ رہ گئِ ۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہو گا کہ سولہ سال کی طویل جلاوطنی کے بعد بھی کم گو اور نرم خو راشد الغنوشی تیونس کے عوام میں اس قدر مقبول ہو گا۔ دنوں کے بات رہ گئی تیونس کے حسن البناء ، راشد الغنوشی کا دست راست اور النہضہ پارٹی کا سیکرٹری جنرل حمادی جبالی، جو پیشے کے لحاظ سے سولر انجنئیر  ہے، تیونس کی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے والا ہے۔
مراکش میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی وہی حیثیت ہے جو مصر میں اخوان المسلین یا پاکستان میں جماعت اسلامی کی ہے۔ یہاں کی صورت حال بھی Benkirane_crکم وبیش وہی ہے جس کا ذکر تیونس کے باب میں پہلے ہو چکا ہے۔ یقیناً یہ ایک حیران کن امر ہے کہ آخر ایسا کیا جادو چل گیا ہے کہ عرب و عجم میں مسلمانوں نے اپنا طریق حیات ہی بدلنے کو فیصلہ کر لیا ہے۔ مراکش کے عام انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے۶۰ ساٹھ فیصد ووٹ حاصل کر لئے  ہیں اور مراکش کا بادشاہ محمد ششم اس بات پر مجبور ہے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ عبد للہ ابن کیران کو ملک کے پہلے اسلام پسند وزیراعظم کے طور پر نامزد کرے کیونکہ مراکش  کے عوام نے اس کے لئے کوئِی دوسرا راستہ چھوڑا جو نہیں۔ شیطانی طاقتوں کے لئے یہ تازیانہ ہے کہ موسٰی بن نصیر اور طارق بن زیاد کا شمالی افریقہ ایک مرتبہ پھر اسلام کے دامن میں پناہ لےچکاہے۔
اب ذکر ہو جائے عالم عرب کے سب سے بڑے ملک عرب جمہوریہ مصر کا۔ اگرچہ انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی اس ملک ایک ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے اور فراعنہ مصر کے علاوہ بھی اس کی تعارف کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم جب سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت عمروبن العاص نے اسے پاپائے روم کے سائے سے نکال کر ملت اسلام کے جسم کا حصہ بنایا ہے تب سے آج تک اسلامی تاریخ میں اس کا ایک جداگانہ مقام ہے۔  ماضی قریب میں انورالسادت اور اس کے شاگرد رشید جمال عبدالناصر نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس ملک سے اس کی اسلامی شناخت چھین لی جائے اور اسے یا تو قدیم فراعنہ مصر سے جوڑ دیا جائے یا پھر حال کے رومن امپائر کا باجگزار بنا دیا جائے یا پھر عرب قومیت کے بت کی علامت بنا دیا جائے مگر حالیہ انتخابات کہ نتائج نے یہ hasan_al_bannaواضح کر دیا ہے عشروں تک اس کی قسمت سے کھلواڑ کرنے والے  فرعونوں جیسے حکمران ناکام رہے ہیں اورقاہرہ کے نواحی قصبے محمودیہ کے پرائمری سکول کا وہ ٹیچر کامیاب رہا ہے جس نے مصر کا ماضی، حال اور مستقبل اسلام کے ساتھ وابستہ کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ وہ استاد، امام حسن احمدعبدالرحمان البنا جسے عرف عام  میں حسن البناء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، تو اخوان المسلمین جیسی بے مثال تحریک برپا کر کے اپنے رب کے حضور سدھار گیا مگر جس شمع کو اس نے اپنے خون جگر سے  روشن کیا تھا آج پورا  عالم عرب اس کے نور سے جگمگ کر رہا ہے۔ مصر کے اسلام پسندوں نے شیطان کی امیدوں کے تمام محل مسمار کر ڈالے ہیں۔ سلفیوں کےساتھ مل ک اخوانیوں کے ووٹوں کی فیصدی ترکیب ۹۰ فیصد بنتی ہے جس دیکھ کر فراعنہ مصر کی ارواح پر تو جو گزری سو گزری مگر ماضی قریب میں اپنے آپ کو  فرعون قرار دینا والا حسنی مبارک، جس کا الشرم الشیخ میں پڑا  بے حس و حرکت جسم اپنے ڈاکٹروں کی مسیحائی کامحتاج ہے، بے کل ہو چکا ہے۔اس کی زندگی کے ٹمٹاتے چراغ کے لئے اخوانیوں کی کامیابی آندھی ثابت ہو رہی ہے اور جس دن کوئی اخوانی یا سلفی فرعون کے ساتھ وابستہ کردہ کرسی صدارت پر متمکن ہو گا،حسنی مبارک کی روح اس کے جسد کا پنجرہ توڑ کر فرعونوں کے ساتھ جا شامل ہو گی۔
اخوانیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مصر کا ماضی ہی نہیں حال اور مستقبل بھی صرف اسلام سے وابستہ ہے۔  مصر کی افواج وہ کردار ادا کرنے کی کوشش کر Hamas founder Sheikh Ahmed Yassin talks during an interview in Gaza March 9,2004.The Islamic militant group Hamas said on Tuesday a possible evacuation of Jewish settlers from Gaza would signal a victory for Palestinian militancy. . REUTERS/Suhaib Salem رہی ہیں جو الجزائر کی فواج نے کامیابی سے ادا کر دیا تھا اور ترک افواج اسے ادا کرنے میں ناکام رہی تھیں مگر مصری فوجوں کو یہ یاد رکھنا چاہئَے کہ نہ تو حسن البناء  الجزائر میں پیدا ہوا تھا اور نہیں ہی اخوان المسلمین ترکی میں قائم ہوئی۔
شیخ احمد یاسین کی ‘حماس’ اور اسماعیل ہانیہ کے فلسطین کا ذکر رہ گیا ہے مگر بات صرف الجزائر اور ترکی کی نہیں، بات تیونس، مراکش اور مصر کی بھی نہیں اور بات شام، یمن، لیبیا یا پاکستان کی بھی نہیں، بات صرف مسلم امہ کی بھی نہیں بالکہ بات تو پوری کائنات کی ہے۔ یہ تو ہو کر رہنا ہے کیونکہ مستقبل تو اسلام کا ہے صرف اسلام کا۔

Monday, April 4, 2011

کیا ترکی ہمارے لئے رول ماڈل بن سکتا ہے؟؟

Picture1 revolution سالوں سے سلگتے آتش فشان کا دہانہ جب تیونس میں پھٹ پڑا تو آنے والا زلزلہ قیامت خیز بھی تھا اور عبرتناک بھی جس نے صرف تیونس ہی نہیں پورے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بادشاہوں، امیروں اور مطلق العنان آمروں کے شکنجے میں کسے بلبلاتے لوگ بالآخر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی گردنوں سے غلامی کا جوا اتار پھنکا۔ تیونس پہلی دفعہ اس مزے سے آشنا ہونے جانے رہا ہے جسے جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اگلا پڑائو شمالی افریقہ کا سب سے اہم ملک مصر تھاجہاں تحریر سکوائر میں ایک نئی تاریخ تحریر کی گئی۔ مصریوں نے دور جدید کے فرعون صفت شخص کو چند ہفتوں میں نکال باہر کیا اور اپنے سوٹ کی پٹیوں میں بھی اپنے نام کندہ کروا کر پہننے والا حسنی مبارک آج شرم الشیخ کے ایک مکان میں سنگینوں کے سائے تلے قیدی کی حیثیت سے اپنی زندگی کے بقیہ دن گزار رہا ہے۔ امریکہ نوازی میں ایران کے رضا شاہ پہلوی کی تاریخ دہرانے والا حسنی مبارک اس بات سے آنکھیں بند کئے رہا کہ آنکھیں پھیرنے میں امریکا کا کوئی ثانی نہیں اور اپنے کاسئہ لیسوں کے لئے اس کا آخری عمل وہی ہوتا ہے جو ٹشو پیپر کو استعمال کرنے بعد کیا جاتا ہے۔ یمن ، بحرین، لیبیا الجزائر، شام ۔۔۔ فہرست میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور ہر جگہ تیونس اور مصر کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ تبدیلی کے اس سلسلے میں متاثرہ ملک کے ملحقہ ممالک کا کردار اور اس کے اثرات نہایت قابل غور ہیں۔
سب سے پہلے ایران کو دیکھتے ہیں، ہمارا یہ خیال ہے کہ ایران ایک برادر اسلامی ملک ہے جس پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں مگر ایران برادر اور اسلامی دونوں iran_nuclear_picture کے کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی توسیع کا اس کا اپنا ایجنڈا ہے جس پر ایران پوری دلجمعی سے عمل پیرا ہے۔ پاکستان میں کرم ایجنسی اور صوبہ بلوچستان میں ایرانی مداخلت اب راز نہیں رہی جہاں کی شیعہ آبادی کو ورغلا کر ایران اپنے مقاصد کی بارآوری چاہتا ہے جس میں بھارت اس کا قابل اعتماد اور قابل فخر حلیف ہے۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں دس سے پندرہ فیصد شعیہ آباد ہیں۔ نجران اس علاقے کا اہم شہر ہے جس کی تینتیس فیصد آبادی اسماعیلی شیعوں پر مشتمل ہے جبکہ دمام اور خبر جیسے اہم صنعتی شہروں میں بھی ایک بڑی تعداد میں شیعہ آباد ہیں جن کی مالی معاونت اور انہیں سنی بالادستی کے خلاف بھڑکانے میں ایران کا ہاتھ بیان کیا جاتا ہے۔ سنی طالبان کے خلاف شیعہ اکثریتی شمالی اتحاد کی مدد کر کے ایران نے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں کافی اضافہ کیا ہے جبکہ بحرین کی ننھی منی ریاست کو ایران کی اسمبلی کے سپیکر علی لاریجانی نے ایران کا صوبہ قرار دیا تھا۔ اگرچہ بحرین میں اسی فیصد آبادی شیعہ ہے مگر حکمران سنی مسلم ہیں۔ شیعہ اکثریت کو ایران اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بحرین کے حکمران ایرانی زیردستی سے بچنے کے لئے سعودی عرب سے براہ راست اور پاکستان بالواسطہ مدد کےخواستگار ہیں۔ بحرین کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کے لئے بحرینی حکمرانوں کے پاس صرف پاکستان کا آپشن ہے تاہم ایرانی مال اور اپنی اولاد کے ذریعے سعودی عرب میں آبادی کی تفریق کو اپنے حق میں کرنے کے منصوبے رکھنے والی شیعہ کمیونٹی کو بحرین میں ایسا کرنے سے روکنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ لبنان، شام اور عراق میں شیعہ اکثریت میں بھی ہیں اور طاقتور بھی۔ اگر بحرین اور یمن کے حوالے سے ایرانی منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو مشرق وسطیٰ میں ایران فیصلہ کن حیثیت اختیار کر جائے گا اور یہ صورتحال بہت سوں کے لئے ناقابل قبول ہے مگ1238205600-The-Kingdom-of-Saudi-Arabia ر سعودی عرب کے لئے ناقابل برداشت بھی۔
سعودی عرب نے اپنے مشرقی صوبے میں مستقبل بعید میں بھی ہونے والی متوقع گڑبڑ کا راستہ روکنے کے لئے خلیج تعاون کونسل کے جھنڈے تلے اپنی فوج بحرین میں داخل کر دی ہے ۔ سعودی حکمرانوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ایرانی اثر کو بحرین میں روک کراپنے مشرقی صوبے پر منڈلاتے خطرات کا سدباب کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر دمام میں ہونے والے حالیہ ہنگامے واضح کرتے ہیں کہ فی الحقیقت ایسا نہیں۔ انہیں بہر صورت اپنی جنگ اپنی دہلیز پر ہی لڑنی پڑے گی ۔ ہم بحرین میں ایرانی نفوذ پر تنقید کرتے ہیں مگر سعودی افواج کا بحرین میں داخلہ بھی قریباً اتنا ہی ناگوار محسوس کرتے ہیں۔ یمن میں سعودی عرب کا اثر و نفوذ ہی نہیں،مداخلت بیجا کسی طور پر بھی قابل تحسین نہیں۔ اور تو اور سعودی عرب پاکستان پر بھی دھونس جمانے سے ہر گز نہیں چوکتا، کیونکہ پاکستانی حکمرانوں کو بے پناہ نوازنے کے بعد وہ ایسا کرنے میں اپنی سامنے کوئی رکاوٹ نہیں پاتا۔ نواز شریف صاحب کا معاملہ یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان صرف امریکہ کہ کالونی نہیں سعودی عرب کا ایک ‘صوبہ’ بھی ہے۔pakistan-khappay
پاکستان کے نااہل حکمرانوں نے امریکہ اور سعودی عرب وغیرہ کی شہ پر جو کھیل افغانستان میں کھیلا وہ قابل تعریف ہرگز نہیں۔ افغان جہاد کے بعد اگر افغانستان کا مسئلہ افغان حل کرتے تو آگ و خون کی جو ہولی آج پورے پاکستان میں کھیلی جا رہی ہے اتنی دہشتناک نہ ہوتی۔ ہم نے افغانوں کے ساتھ اس سے بدتر معاملہ کیا جو ہم نے خالصتانیوں کے ساتھ کیا تھا۔ بین الاقوامی سیاست کرکٹ پر لگایا جواء تو نہیں کہ آپ ہاریں یا جیتیں پاکستانی وکٹ کیپر کی طرح ٹیم میں پھر بھی شامل ہی رہیں گے۔
ایران، سعودی عرب اور پاکستان کے مقابلے میں ایک اور ملک بھی پوری جاہ وحشمت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ جو صرف مسلمانوں کے معاملات میں نہیں ہر مظلوم قومیت کے لئے شاندار کردار ادا کر رہا ہے۔دنیا بھر میں المناک قدرتی آفات میں دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے اس کی خدمات تابناک ہیں Tayyab Erodgan ہی مگر جنگ و جدل کا شکار خطے بھی اس کے دستِ شفیق کا لمس اپنے اوپر محسوس کرتے ہیں۔ اس ملک کا نام ہے ترکی اور دنیا نے اسے مشرق اور مغرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے لئے چن لیا ہے۔ ترکی اسرائیل کا قریبی دفاعی دوست ہے مگر غزہ کے مظلوم مسلمانوِ کے درد میں تڑپتا ترکی کا وزیراعظم طیب اردگان فلسطینیوں کے لئے امید کا دیا بھی ہے۔ترکی نے لیبیا کے آمر معمر قذافی کو قریبی دوست ہونے کا احساس ہی نہیں دلایا بلکہ بن غازی میں اپنے قونصلیٹ کو باغیوں کے لئے کھول دیا تاکہ مذاکرات اور رابطے کا جو دروازہ سیاہ کار امریکیوں نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے فوجی حملے سے تباہ کرنے کی کوشش کی ہے، کھلا رہے اور دونوں فریق اپنے ملک کو دولخت ہونے سے بچانے کے لئے جو کوشش کر سکتے ہیں، کرتے رہیں۔ طیب اردگان شام کے صدر بشر الاسد کو اصلاحات کرنے کے لئے انسپائر کر رہے ہیں، لبنان میں شیعہ، سنی اور دروزیوں کے درمیان رابطہ کار ہیں اور حال ہی میں انہوں نے استنبول میں طالبان کو بھی اپنا سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ اپنا جس طرح کا رابطہ قائم رکھنا چاہتے ہیں قائم کریں، مگر حامد کرزئی ترکی کو اپنا جتنا ہمدرد اور غمگسار سمجھتے ہیں اور کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تمام مقامات پر ترکی بن بلائے نہیں گیا اور نہ ہی اس نےکہیں پر دھونس جمانے کی کوشش کی ہے بلکہ اس کر کردار انتہائی میانہ رو، باہمی احترام اور صلح جوئی پر مبنی ہے جس کہ وجہ سے ترکی دوست تو سب کا ہے، دشمن کسی کا نہیں۔
۔۲۰۲۰ میں دنیا کی پہلی دس معیشتوں میں مقام پانے کے امیدوار ترکی کا بین الاقوامی سیاست میں روز بروز نکھرتا اور عزتمند ہوتا ہوا کردار ہمارے لئے قابل فخر ہی نہیں قابل تقلید بھی ہونا چاہئے، ناکہ کوئلوں کی دلالی میں اپنا منہ کالا کرنے اور ذلت کی پستیوں میں گرنے والے امریکیوں کی طرح ہمارا مقدر بدنامی ہی بدنامی ہو۔

Wednesday, March 16, 2011

خوش رہو ریمنڈ ڈیوس

Raymond-Davis اگر ایک تھانے کے ایس ایچ او سے لے کر ملک کے صدر تک تمام بضد ہوں کہ تین بے گناہ پاکستانیوں کے خون کی قیمت زبانی کلامی معافی تلافی یا پھر سفارتی استشناء سے بڑھ کر کچھ نہیں تو پھر ریمنڈ اور اس کے ہموطنوں کی جانب سےمقتولین کے ورثاء کے لئے ۳۷ کروڑ کی دیت،ان کی آنے والی نسلوں تک کے لئے تعلیم و روزگار سب کچھ کا وعدہ، ہر متاثرہ خاندان کے دو افراد کے لئے خوابناک امریکی گرین کارڈ کی فراہمی وغیرہ وغیرہ وہ انعامات ہیں جس کے لئے ہم امریکہ کے شکر گزار ہی نہیں احسان مند بھی ہیں۔ اب اگر کوئی لاکھ کہے کہ ملکی حمیت کا کیا ہوا، دنیا میں باوقار اور سر اٹھا کر جینے کی موہوم پاکستانی خواہش کیسے قربان ہوئی یا اس امریکی اٹارنی کے دعوے کہ پاکستانی دس ڈالر کے لئے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں ، پر مہر تصدیق ثبت کرنے اور دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سامان کرنے کا شرمناک فعل کیسے انجام پایا تو یہ سب ثانوی باتیں ہیں جن کا مفاد کے تابع رہنے والے مادہ پرستوں کو کوئِی سروکار نہیں۔ حیرت تو بجا ہے مگر واقعہ حیران کن ہرگز نہیں۔ ڈالروں کے لئے اپنی غیرت و حمیت کی جو سوداگری نوازشریف نے ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کر شروع کی تھی اور جسے سابقہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے نئی جہتوں سے روشناس کرایا تھا، اب اس بدقسمت پاکستانی قوم کے ماتھے پر لگا کلنک کو وہ ٹیکا ہے جو رہتی دنیا تک ہر خاص وہ عام میں ہمارے تعارف کا باعث ثابت ہو گا۔

دنیا نے کبھی ہمارے ایک قوم یا ملت ہونے کے دعوے کو دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور ہم نے بھی نہیں چاہا کہ ہماری پہچان ایک حقیقی قوم کی حیثیت سے ہو جس کی غیرت اس کی خواہش نفس سے بڑھ کر اور ضروریات زندگی سے ماورا ہوتی ہے۔ ہم تو سنگاپور کی اس شہری ریاست سے بھی گئے گزرے ہیں جس نے ہر قسم کے امریکی دبائو کو جوتے کی نوک پر  رکھا اور نہ صرف گرفتار امریکی کو ٹرائل کیا بلکہ عدالت سے دی گئی سزا کو بھی نافذ کر کے دکھایا۔ مگر سنگاپور اور پاکستان میں فرق بھی تو بہت ہے، وہ ایک چھوٹے سے شہر پر مشتمل ملک ہے جس کی زیادہ زیادہ چوڑائی ۲۸ میل اور کل رقبہ ۷۱۰ مربع کلومیٹر جبکہ پاکستان لاکھو ں مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے جس کی ۱۱ لاکھ  ریگولر اور پیراملٹری فورس دنیا کی چھٹی بڑی قوت سمجھی جاتی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو اتنی بڑی فورس ہی ہمارے بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ ہے، ریمنڈ کا معاملہ بھی جب تک سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں رہا، وہ گرفتار بھی ہوا، عدالت میں پیش بھی ہوا ، اس کا ریمانڈ بھی دیا گیا اور اسے جیل میں بھی ڈالا گیا مگر جوںہی ہماری مقتدرہ ایجنسیاں اس میں ملوث ہوئیں آلہ دین کے چراغ کے جن مانند سب کچھ لمحوں میں بدلا اور ریمنڈ کے بارے ہمیں تب پتہ چلا جب وہ باگرام ایئر بیس پر پہنچ چکا تھا۔

ہم یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا سکتے ہیں کہ یہ ہماری قسمت کا لکھا ہے مگر ہم اس الزام سے کیسے بچ پائیں کہ یہ قسمت ہم نے خود ہی تو تخلیق کی ہے

Friday, March 11, 2011

Tor Ghar (Kala Dhaka) … Past, Present & Future

IMG_0203 Newly created district of Tor Ghar was formerly known as Kala Dhaka and was a tribal area in district Mansehra, is a rugged, mountainous region of approximately 500 square miles that spans the Indus River in Khyber Pakhtunkhwa Province. Earlier a provincially administered tribal area of Khyber Pakhtunkhwa, the major part of Tor Ghar lies on the eastern bank of the Indus River in the watershed of the mountain range (Black Mountain) from which the area takes its name. This range, which averages 5,000-8,000 feet, runs south to north for approximately 30 miles between the river port of Darband and Thakot, a bazaar on the Karakoram Highway. The western portion of Tor Ghar lies on an equally steep watershed formed by the mountains that separate the Gadoon Ahmazai tribal area of Swabi District from the Indus basin.
Tor Ghar can be divided into three general agro-ecological zones. These zones are the subalpine pasture, evergreen forest, and river valleys of the highlands that extend from 5,000-6,000 feet above sea level to the ridgeline; the sparsely populated, steep-sided valleys of the midlands that extend from 2,3000-5/6,000 illustrates the general settlement pattern throughout Tor Ghar.
Tor Ghar lacks sufficient agricultural land to meet the subsistence requirements of its population. Most households supplement their agricultural production by keeping livestock for milk and meat; the region's abundant grasslands and pasture support a large number of livestock compared to other mountainous areas of Pakistan. Still, because of the region's limited agricultural lands, a problem compounded by the fragmentation of all land holdings Tor Gharans depend on the importation of food for at least half of their annual subsistence requirements.
clip_image002
Population Estimates             (source: Wikipedia)
Tor Ghar's Tribes:
Tribes Population (approx)
Mada Khel 24,000 Approx
Hassanzai 35,000 Approx
Akazai 29,000 Approx
NusratKhel 12,000 Approx
Basikhel 85,000 Approx

Population of Tor Ghar is mainly comprised of five tribes, namely Akazai, Basi Khel, Hasanzai, Mada Khel and Nusrat Khel. Inclusive of all Tor Ghar is accommodating 0.5 million people approximately. (figures need to be confirmed)
The extent of long-term migration of men from Kala Dhaka for wage employment is a vivid testament to the dependence of the region on outside sources of income for survival. Nearly 88 percent of all Kala Dhaka households surveyed by the KDADP, a project launched by the government with financial assistance of ADB in 90s, have at least 1 member working outside the region for an average of nine months per year. Half of those households have from 2-5 members working outside the region.
The lessons that can be drawn from this experience are that locals don’t have considerable sources of livelihood in their home region. The high level of male absenteeism undoubtedly affects the efforts of bringing development to the people and uplifting of the area, if carried out in the past.

Problems Pertaining to Tor Ghar
Tor Ghar is considered the most underprivileged and deprived region of Khyber Pakhtunkhwa where very basic needs of life are almost nonexistent which makes the life of locals very deplorable and miserable.

Educationhome_pic_3
The only system of education which exists in Tor Ghar is primary education which is, unfortunately, also moribund. Teacher absenteeism is acute, teachers are underpaid, and teaching materials scarce. Also, there is a lack of supervision of the teachers by the concerned department and of institutionalized in-service training for teachers. Most of the schools don’t have their own buildings. Staffs recruited from outside the area don’t have inclination to serve in the area due to lack of basic needs of life. Literacy rate is just 4% while women don’t have any opportunity of schooling and education.
Health
medicalThis part of the world doesn’t possess any facility on the name of health. Few basic health units are the health facility in all for whole  of the district. People face severe problems whenever there is an emergency. People have to take their patients to the town of Oghi which takes the whole day from some parts of the district. For major health related issues district headquarter hospital Mansehra and Ayub Teaching Hospital in Abbottabad. Women are most vulnerable segment of the society in this sector as well. The whole of the district don’t’ have the services of even a single lady doctor.
 
Communication NetworkROADS_Highway
500 miles long newly created district of Tor Ghar don’t have any communication infrastructure at all. Steep & narrow roads cannot  link the distant places of the district. Sometimes it takes a whole day to reach the nearest town of Oghi in district Mansehra from many areas of Tor Ghar. Television broadcasting, mobile & telephone services and other modern day facilities are still a dream for the people.
Electrification
night-view-street (1) In few places of the district people have managed to generate limited amount of electricity at their own but most of the district still live in Dark Age. Illumination of modern day lights is far beyond imagination of poor inhabitants of Tor Ghar. It is direly needed to utilize the local resources for hydel power generation to electrify the district and bringing the change in their lives.

Water Supplydrop1
Mountainous Tor Ghar has waterfalls, springs, streams and rivers in abundant but schemes to supply the water to the households are required. Gravity flow water supply schemes can solve the issue on permanent basis.
Women Developmentr15488_38054
Women are district Tor Ghar are still far away from the developments of modern day life. Education, skill development, casting votes  and participation in other developmental activities is unthinkable for the women of Tor Ghar. They have not been granted with the basic human rights even. There is no health facility for the women all across the district. In fact the life of women in Tor Ghar is very deplorable.
 
Future Perspective
In fact, Tor Ghar has sufficient natural resources for providing livelihood not only to the locals but also to the people of side by areas  but long term planning in this respect have never been done, due to which it is the most neglected part of this province. Following can be major sources of income generation and creation of employment opportunities in the region, if a little attention may be paid.
Tourism
Tor GharLush green valleys, gushing streams, thick forests, snow covered peaks, fertile gazing fields and abundant natural resources and beautiful banks of Tarbela Dam are the key elements of which Tor Ghar is made up. This can be proved another ‘Switzerland’ of Pakistan, if a little attention paid to this unforgotten paradise of this province because the potential is significantly unmatchable. This don’t need unlimited resources to develop a little communication network and few facilities for the touring people but ultimately this  can generate thousands of job opportunities and a permanent source of income for the locals. This sector may be developed on top priority basis.
Forestry
pine-forest- tor Ghar Unique opportunities exist for public as well as private sector to contribute to the forest sector of Tor Ghar. Unlike other regions of Pakistan, the people of Tor Ghar, rather than the government, control their own forests, but they see them as a never-ending resource without a need to replant. High-altitude blue pine forests are being badly destroying by legal and illegal cutting. Existing forests are a great haven for pheasants, dears, Ghazals and wild animals. If forests or kept cutting with current pace and re-plantation was not given importance, this great gift of nature will die an unjust death. Management of existing forest resources, wasteland development and hillside stabilization with the introduction of fast-growing fuel-wood and forage species direly needed to save the beautiful forests of Tor Ghar.

FisheryFishery Tor Ghar
Rivers, streams and adjacent Tarbela Dam can proved a great source of fishery for the locals. Precious trout fish can be pooled in abundant in this region as this is the best natural haven for Trout fish, as an example. Fishing can also become a big source of income and provide job opportunities.
Mineral Development
minerals Tor Ghar Mountains of Tor Ghar are considered to be filled with precious minerals, marble is one of them. Limestone, China clay and Granite can be produced in plentiful. The only thing needed is dedication and commitment for unearthing these resources and bringing change in the lives of common.
 
Agriculturecultivo_maiz_two Tor Ghar
There are opportunities in significant improvement to the region's agriculture by making available improved, high-quality wheat,  maize, seed potato, and other crops along with require inputs (fertilizer). This process, however, required a long-term commitment. Concerned department needs to improve its timely planning, selection, and procurement of inputs to guarantee the acceptance and continued demand for these improved seed varieties.
Livestock
Livestock Tor Ghar Livestock are as important as crops to the agricultural economy of Tor Ghar and should be considered in any attempt to improve local production and income. Vast & fertile gazing fields of Tor Ghar can proved to be a wonderland in respect of Livestock and dairy development. Unlike other mountainous regions, Tor Ghar is rich in grazing fields where goats, sheep, cows and buffalos can be kept.

Wish, pray and will put my efforts for a prosperous Tor Ghar (Kala Dhaka).