Search This Blog

Wednesday, May 31, 2023

ترکیہ میں رجب طیب اردگان کی فتح

 ایک پرانی تحریر

رجب طیب اردوگان ترکیہ کے دوبارہ صدر منتخب ہو چکے ہیں مگر حالیہ انتخابات کے نتائج نے یہ ثابت کیا ہے ۲۳ سال سے ترکیہ کے آسمان پر سورج بن کر چمکنے والے اس قابل فخر انسان کی روشنی ماند پڑنے لگی ہے۔ ریاست اور میڈیا کی قوت پر کنٹرول رکھنے کے باوجود بھی وہ پہلے مرحلے میں واضح برتری حاصل نہ کر سکے جبکہ دوسرے مرحلے کے نتائج نے بھی ثابت کیا ہے کہ کمال قلیج دار اولو ایک سخت جان حریف ثابت ہوئے ہیں۔ اگر چہ کمال اولو اردگان مخالف ووٹ اور اپوزیشن کی تقریبا تمام جماعتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کوئی کرشماتی اثر دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ مذہبی طور پر علوی ہونے، عمر رسیدہ ہونے اور کوئی خاص معاشی منصوبہ نہ دینے کی وجہ سے وہ اردگان کو برابر کی ٹکر نہیں دے سکے تاہم الیکشن کو دوسرے مرحلے میں لے جانے اورکم و بیش اڑتالیس فیصد ووٹ حاصل کرنے نے یہ ثابت کیا ہے کہ ترکیہ کے اقتدار پر اردگان کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔

اردگان نے الیکشن کے قریب آتے ہی اپنے تمام پتے دکھا دئیے تھے۔ ترکیہ میں بنائی گئی کار توگ سڑکوں پر دوڑا دی گئی، بائر اکتار ڈرون جس نے آرمینیا اور آذربائجان کی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا، کا جدید ترین ورژن لانچ کر دیا گیا، ترکیہ میں بنایا گیا پہلا ٹینک التائی فوج کے حوالے کر دیا گیا، ترکیہ میں بنایا گیا سب سے بڑا بحری جہاز اناطولیہ (انادولو)جس پر جنگی جہاز بھی اتارے اور اڑائے جا سکتے ہیں، سمندر میں اتار دیا گیا، اتاک نامی ترکیہ ساختہ ہیلی کاپٹر منظر عام پر لایا گیا ، سال کے آخر تک اپنا پہلا خلا باز خلا میں بھیجنے کا اعلان کیا گیا اور تیل و گیس کے بڑے بڑے منصوبوں کے بھی اعلانات کئے گئے مگر ترکیہ کی معاشی صورتحال نے اردگان کو آسان فتح سے ہمکنار نہ ہونے دیا۔

تمام تر ملٹری کامیابیوں کا چرچا ترکیہ کی کمزور ہوتی معاشی حالات جہاں افراط زر کی شرح ۸۵ فیصد کو پار کر چکی ہے ، اردگان کے لئے کوئی خاص ریلیف نہیں فراہم کر سکا۔ اردگان کا خیال رہا ہو گا کہ سن ۲۰۰۱ میں ایک معاشی طور پر دیوالیہ ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے اور اسے جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی انیسویں بڑی معاشی قوت اور پرچیز پاور پیرٹی کے لحاظ سے گیارہویں بڑی قوت بنانے کے بعد وہ ترکوں کے لئے واحد انتخاب ہو گا مگر افراط زر اور مہنگائی نے یہ ثابت کیا ہے عام آدمی کو ڈرون اور ٹینک اور ہیلی کاپٹر سے زیادہ دلچسپی سستی روٹی میں ہے۔

افراط زر کی وجہ سے ترکیہ کہ کرنسی دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے اور عام ترک کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ طیب اردگان کا الیکشن میں سخت مقابلے کا سامنا رہا ہے ۔ اس الیکشن کمپین کو دیکھ کر یہ بھی ظاہر ہوا کہ صرف کمال اولو ہی عمر رسیدہ نہیں، عمر رسیدگی کا اثر اردگان پر بھی نمایا ں ہے ۔ماضی میں طیب اردگان کی الیکشن مہمات نوجوانوں کی شرکت کی وجہ سے بڑی بھر پور اور جاندار رہی ہیں جن کی وجہ اسے لینڈ سلائیڈ فتوحات حاصل ہوئی ہیں مگر حالیہ مہم میں ایک بوڑھے جانباز کی مدہم ہوتی توانائی کے مناظر آشکار تھے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اگرترکیہ کی متحدہ اپوزیشن اردگان کےمقابلے میں کمال کیجدار اولو جیسے عمر رسیدہ شخص کے بجائے استنبول کے مئیر اکرام امام اولو جیسے کسی جاندار شخصیت کو اتارتی تو الیکشن کا نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔