Search This Blog

Saturday, July 12, 2025


 کیمروں اور فلموں اور ڈراموں کی دنیا کو بالعموم روشنیوں کی دنیا کہا اور مانا جاتا ہے اور لاکھوں نوجوان اس لائم لائٹ مِیں آنے کے خواب دیکھتے دیکھتے جوانی اور بڑھاپے کی منزلیں طے کرتے ہیں مگر درحقیقت اس سے تاریک اور وحشت ناک دنیا دوسری کوئی نہیں۔  حال ہی میں ٹیلیویژن کی معروف سینئر ادکارہ عائشہ خان اور پھر اس  کے بعد ایک نوجوان ادکارہ حمیرا اصغر کی  دردناک اموات ان سب  افراد کے لئے باعث عبرت ہونی چاہیں جو روشنیوں کی چکا چوند، کیمروں کے لش پش اور میک اپ  کی سرخی  و تابانی کو حقیقت سمجھ کر دن رات اس کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ درجنوں کی تعداد میں کسمپرسی و لاچاری کا شکار ادکار و فنکار ، جو جوانی کے ڈھل جانے اور آواز کی کھنک ختم ہو جانے پر تنگ و تاریک کمروں کی قیدی بنے ہوئے ہیں ، زبان حال سے اس بات کی گواہی دیتے نظرآتے ہیں کہ  بظاہر چمکتی دمکتی فلم و فن کی دنیا درحقیقت کتنی تاریک  ہے۔

مذکورہ بالا دونوں اموات نے یہ حقیقت طشت از بام کر دی ہے کہ فن کی دنیا صرف چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ اگر آپ کا حسن  اور صحت برقرار  ہے، آپ کی آواز کی کھنک سننے والوں کو محظوظ کر سکتی ہے اور آپ روشنیوں کی بہائو کے درمیان چمکتے دمکتے دکھائی دے سکتے  ہیں تو  آپ قیمتی ہیں  ورنہ آپ کی لاش اگر سال چھ مہینے تک کسی تنگ و تاریک فلیٹ میں گلتی سڑتی بھی رہے تو پلٹ کر پوچھنے والا بھی کوئی نہیں  کہ آپ  پر کیا گزری۔

حمیرا اصغر کی موت کا دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ اول  اس کے خاندان نے اس کے مردہ جسم بلکہ گلی سڑی لاش کو اپنانے سے انکار کیا اور اگر کسی معاشرتی دبائو یا أولاد کے دبی محبت کی وجہ سے انہوں نے وہ لاش وصول تو کر لی اور اس کے کفن دفن کا بھی انتظام کر دیا مگر یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ایسا انہوں نے کس دل کے ساتھ کیا  ہے۔

والدین کے لئے اپنی زندگی کی کل متاع ان کی أولاد ہوتی ہے۔ فیمنزم اور میرا جسم میری مرضی کی پرچارک آنٹیوں نے نوجوان نسل کو خاندان سے بغاوت اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کے ایسے غلط  راستے پر ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے حمیرا اصغر کے سفید ریش باپ نے اس کے ہاتھوں کتنے درد سہے ہوں گے، کتنی تکالیف برداشت کی ہوں گی اور کتنی بے کسی سے اس سے کنارہ کشی اختیار کی ہو گی کہ میری بیٹی میرا جسم میری مرضی کے جس راستے پر چل پڑی ہے وہ مجھے قبول نہیں۔ ہر حیادار شخص اپنی بیٹی  کو بالخصوص عزت اور حیا کے ساتھ زندگی گزارتے دیکھنا چاہتا ہے۔ فیمینزم کے پرچارک اس کے والدین اور بھائی کے دقیانوسی ہونے پر خوب لعنت ملامت کر رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس باپ اور بھائی نے کتنی کوشش کی ہو گی کہ ان کی بہن بیٹی حیاکی چادر کو سر سے نہ اتارے اور اسلامی و مشرقی روایات کے ساتھ اپنی زندگی گزارے مگر یقینا وہ اسے روشنیوں (درحقیقت اندھیروں ) کی دنیا میں جانے سے روکنے میں ناکام ہوئے ہوں گے اور بالآخر معاملہ قطع تعلق تک پہنچ گیا ہو گا۔

موت کے بعد مردے کی صرف اچھائیاں بیان کرنا نہ صرف ہمارے دین  کی تعلیم ہے بلکہ معاشرتی روایت بھی ہے، ہم بھی اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ مرحومہ پر اپنا فضل و کرم فرمائے اور جو تکلیف اس نے اور اس کی میت نے اس دنیا میں برداشت کی ، اس کے بدلے اسے اپنی رحمتوں سے نوازے مگر تمام نوجوانوں ، مرد و خواتین ، کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ اگر آپ اپنے جسم پر اپنی مرضی کے موجودہ  نظریات کی پیروی کریں گے  اور والدین و معاشرتی روایات اور دینی ہدایات سے بغاوت کریں گے تو پھر معاشرہ آپ کے والدین کو گناہ گار ٹھہرانے میں حق بجانب نہیں  ہو گا کہ جس زندہ جسم پر آپ اپنی مرضی چاہیں ، اس جسم کی موت ہو جائے تو وہ آپ کے والدین یا خاندان کی ذمہ داری ہو۔

Thursday, June 12, 2025


-

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سرمایہ دار اپنا سرمایہ صرف کمپنیوں میں ہی نہیں لگاتا بلکہ سیاستدانوں پر بھی بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ بظاہر تو وہ ایسا وسیع تر قومی مفاد میں کرتا ہے مگر درحقیقت وہ اس سرمایہ کاری سے اپنے سرمایے کو محفوظ بنانے اور مزید سرمایہ حاصل کرنے میں سہولت کاری کی کوشش کرتا ہے۔بھارت میں  نریندرا مودی پر سرمایہ کاری کرنے والے  گوتم ادانی ا ور سجان جندل اور ماضی بعید میں ویرو بھائی امبانی ،  روس میں ولادی میر پیوٹن کی سیاسی مہمات کو فنانس کرنے والے رومان ابراہیموچ ،  جنوبی کوریا  کی صدر پارک گنہے پر سرمایہ کاری کرنے والے سامسنگ گروپ کے مالک  لی جے یانگ ، پاکستان میں عمران خان کی الیکشن مہم پر بے دریغ پیسہ لٹانے والے جہانگیر ترین  اور حال ہی میں امریکی الیکشن پر اثر انداز ہونے والے ٹیسلا اور سپیس ایکس جیسی کمپنیوں کا مالک ایلن مسک  اس کی چند  نمایاں مثالیں ہیں۔
اس قسم کی سرمایہ کاری کو تقریبا تمام دنیا میں عمومی طور پر قبول کیا جاتا ہے تاہم  تصویر کا رخ تب بدلتا ہے جب کوئی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کا ، اس کے خیال کے مطابق "مناسب " بدل حاصل نہیں کر پا تا اور دونوں کے درمیان تعلقات خراب یا پھر ختم ہو جاتے ہیں۔ جنوبی کوریائی سرمایہ دار  لی جے یانگ  کو تو کوئلوں کی اس دلالی میں کئی مرتبہ جیل بھی جانا پڑا  تاہم پاکستان کے جہانگیر ترین اورامریکہ کے  ایلن مسک جیل جانے سے تو بچے رہے تاہم جن پر انہوں نے سرمایہ کاری کی تھی  ان کے ساتھ اختلافات کا منظر پوری دنیا نے دیکھا ہے۔
ایلن مسک نے کھل کر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم چلائی اوردوران مہم یا پھر ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے بعد کئی مرتبہ ایسے اشارے کنائیوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے جس پر کافی لے دے ہوتی رہی ۔ خاص طور ایڈولف ہٹلر کی طرح اپنے ہاتھ کو محسوس انداز میں لہرانا  یا پھر ایک میکانکی آرے کو چلاتے ہوئے یہ اظہار کرنا کہ وہ امریکن بیورکریسی پر اسے چلا رہا ہے  ، پوری دنیا میں بحث کا مرکز بنے رہے۔
ایلن مسک نے ٹویٹر کو خریدنے کے بعد شاید پہلانمایاں کام یہ کیا کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکائونٹ بحال کر دیا جو پرانی انتظامیہ نے پالیسیوں کی خلاف ورزی پر بند کر دیا تھا۔ اسے نے نا صرف ڈیموکریٹس کے خلاف باتیں کیں بلکہ کھلے عام  ریبلکن کو ووٹ دینے کا اعلان کیا۔  وہ ریبلکنز کی فلوریڈا میں ہونے والے ڈونرز کی کانفرنس میں بھی شریک رہا۔ اس  نے ٹویٹر پر(جسے اب ایکس کہا جاتا ہے)دائیں بازو  کے  انفلوئنسرز کے   جو ریبلکنز کو سپورٹ کرتے ہیں ، نا صرف اکائونٹ کھول دیئے  بلکہ ان کو باقاعدہ پروموٹ کرنا شروع کر دیا۔ مسک نے ٹرمپ کے خلاف ہونے والے مواخذے کی کاروائیوں کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کھل کر ٹرمپ کی حمایت کی۔   سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کے اس امیر ترین شخص نے ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم میں 288 ملین ڈالر (81.3 ارب روپے) کی خطیر رقم خرچ کی اور یوں وہ امریکی تاریخ  کے سب سے بڑے سیاسی عطیہ کنندہ کے طور پر سامنے آیا ۔ اس نے نہ صرف خود اتنی خطیر رقم عطیہ کی بلکہ اپنے قریبی دوستوں انتونیو گریژیاث ، جو لونز ڈیل اور شان میگوائر سے بھی بڑے بڑے عطیات دلوائے ۔ حد تو یہ ہے کہ وسکانس کی ایک عدالت  میں ایلن مسک کے خلاف ووٹروں کو 100 ڈالر فی کس رشوت دینے  اور الیکشن کے عمل پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے ایک کیس بھی دائر کر دیا گیا ہے  حلانکہ وہ اس کا اقرار نہیں کرتا۔
 ظاہر ہے ایلن مسک نے یہ سب  ڈونلڈ ٹرمپ کی محبت میں تو نہیں کیا بلکہ لازمی طور پر وہ اپنی کمپنیوں سپیس ایکس، ٹیسلا، ایکس  ، نیورا لنک وغیرہ کے لئے حکومتی مراعات کا امیدوار ہو گا اور بجا طور پر امید رکھتا ہو گا کہ ٹرمپ صدر بننے کے بعد اس کے کاروباری سلطنت کے حوالے سے دوستانہ فیصلے لے گا۔ تاہم یہ حیران کن تھا جب ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اسے نئے قائم شدہ حکومتی محکمے " ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی" کا سربراہ مقرر کر دیا اور یوں وہ ریاستی پالیسیوں میں براہ راست شریک ہو گیا۔  اس نے کم و بیش وہی حیثیت اختیار کر لی جو پاکستان میں کبھی جہانگیر ترین صاحب کو عمران خان کے دور حکومت میں حاصل رہی تھی۔
ایلن مسک اپنی کاروباری سلطنت میں یونین بازی کو پسند نہیں کرتا  اور نہ ہی وہ لیبر قوانین  اور دیگر  حکومتی قواعد و ضوابط کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے جو کاروباری مفادات کے خلاف پڑتے ہوں۔وہ حکومتی بیوروکریسی کے سخت ناقدین میں سے ہے اور چاہتا ہے کہ بڑے حکومتی انفراسٹرکچر کے بجائے سمارٹ حکومتی انفراسٹرکچر قائم ہو۔ وہ  میڈیا پر حکومتی سنسر شپ کا بھی مخالف ہے ۔  ایلن مسک اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X کو سپر ایپ بنانا چاہتا ہے جو  روایتی میڈیا  کا متبادل ہو اور اس بڑھ کر وہ ایک مکمل  پیمنٹ پلیٹ فارم بھی بن جائے۔  وہ  برقی گاڑیوں، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کو اپنے کاروباری مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے  اور یہ سب کرنے کے لئے اسے حکومتی سپورٹ درکار ہے  جس کے حصول کے لئے اس نے ٹرمپ پر کروڑوں ڈالر کی انوسٹمنٹ کی ۔ تاہم اس کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔
کیونکہ اس کے ٹرمپ کے ساتھ اختلافات جلد ہی کھل کر سامنے آنے لگے اور وہ ٹرمپ کے حکومتی نظام سے علیحدہ ہو گیا بلکہ اس نے کھل کر ٹرمپ کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ اس نے X پر حال ہی میں ایک سروے بھی کروایا ہے کہ کیا امریکہ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے علاوہ بھی کوئی سیاسی قوت ہونی چاہیے یا نہیں جس کا 80 فیصد سے زائد نے مثبت جواب دیا ہے۔
بنیادی طور پر ٹرمپ خود ایک بہت بڑی کارباروی سلطنت کا مالک ہے اور کسی بھی طور ایلن مسک کے سامنے دبنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ وہ شخصی تصادم ( (Personality Clashہے  جودونوں شخصیات کے درمیان سیاسی اختلاف کا باعث بن گیا ہے۔  مسک شمسی توانائی کا  حامی اور ماحولیاتی تبدیلی کا وکیل ہے جبکہ ٹرمپ اس کو "بکواس" قرار دیتا ہے۔  مسک ایک آباد کار ہے جو جنوبی افریقہ سے امریکہ ہجرت کر کے آیا جبکہ ٹرمپ آباد کاروں کے حوالے سے سخت پالیسی اپنانا  چاہتا ہے گرچہ خود ٹرمپ کے آبائو اجداد بھی جرمنی سے ہجرت کر کے امریکہ میں آباد ہوئے تھے۔  ایلن مسک کھلی مسابقتی مارکیٹ چاہتا ہے جہاں حکومتی کنٹرول کم از کم ہوں جبکہ ٹرمپ بڑے کاروباروں جیسے ٹیسلا وغیرہ کو امریکہ کی تنزلی کی وجہ سمجھتا ہے اور ان پر مزید ٹیکس عائد کرنا چاہتا ہے۔ مسک کی امریکہ میں تیسری سیاسی قوت قائم کرنے کی وکالت بھی اس کے ٹرمپ کے ساتھ اختلافات کی ایک بنیادی وجہ ہے۔  ایلن مسک کی سیاست سے حالیہ دلچسپی دیکھ کر  یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ وہ امریکہ میں ایک تیسری سیاسی قوت قائم کرنے کی کوشش کرے یا بذات خود ایک تیسری  سیاسی قوت بننے کی کوشش کرے۔ 
تاہم یہ اتنا بھی آسان نہیں اور اس کا احساس ایلن مسک کو بھی ہے اس لئے اس نے ٹرمپ سے اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔  مسک کا سرمایہ اور ٹرمپ کا اقتدار دونوں ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں اس لئے باوجود محتاط ہونے کے ، وہ مصالحت  کی راہ پر گامزن ہیں۔ مسک نے ایک مرتبہ پھر ٹرمپ سے ملاقات کی ہے  جواختلافات کو ختم  کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ٹرمپ نے مسک کی اس کوشش کا خیر مقدم کیا ہے۔ امریکی جہانگیر ترین نے تو ٹرمپ کے ساتھ پیدا ہو جانے والے اختلافات کو جلد ہی بھلانے اور مصالحت  کرنے میں بہتری سمجھی مگر پاکستانی ایلن مسک کے اپنے ٹرمپ کے ساتھ اختلافات شاید اتنے شدید تھے کہ اس میں مصالحت کو کوئی راستہ باقی نہ رہا تھا اور اس نے  اپنے ٹرمپ کو، جو اس وقت مشکل حالات سے دوچار بھی ہے، شاید ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا ہے۔

Thursday, July 4, 2024

فنکاروں کی کسمپرسی


اکثر و بیشتر نظر سے ان معروف خواتین و حضرات کی انتہائی بے چارگی والی تصاویر گزرتی رہتی ہیں جو فلم یا ٹی وی وغیرہ سے وابستہ رہے ہوتے ہیں۔ آج ہی معروف ادکار خواجہ سلیم کی تصویر دیکھ کر انتہائی دکھ محسوس ہوا کہ خواجہ صاحب مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مشکل مالی حالات ہر انسان پر آ سکتے ہیں مگر شو بز سے وابستہ افراد کے بارے میں اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنے کیرئیر کے اختتام کے دنوں میں انہیں
 دگر گوں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر انہیں کسی بیماری کا سامنا کرنا پڑ جائے تو وہ علاج کے لئے  حکومت اور مخیر حضرات سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں ۔ کچھ دردمند دل رکھنے والے ان کی مدد بھی کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ لائم لائٹ میں رہنے والے، کیمرہ اور روشنیوں کے سامنے اپنی زندگی بسر کرنے والے ، اور بظاہر ایک خوشحال زندگی گزارنے والے ان افراد کے ساتھ ایسا کیا المیہ ہوتا ہے کہ وہ  کیرئیر گزرنے کے بعد اپنا علاج معالجہ تک کروانے سے قاصر رہتے ہیں۔

اس صورتحال سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم ایک ناکام ریاست کے باسی ہیں جو اپنے معروف لوگوں کا  بھی خیال رکھنے سے قاصر  ہے تو عام افراد اس ریاست سے کیا گلہ کریں وہیں یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بظاہر روشن نظر آنے والی فلم و ٹی وی کی دنیا  درحقیقت کتنی اندھیری ہے۔ نہ صرف یہ کہ اتنی بڑی ادکار و فنکار کی کمیونٹی اپنے محروم اور  مدد کے منتظر لوگوں کی مدد کرنے کے لئے کوئی  تنظیم یا اجتماعیت نہیں رکھتی بلکہ  انہیں شاید اس کا احساس بھی نہیں کہ ان کی طرح کا فرد جو کل پردہ سیمیں پر جلوہ افروز تھا آج کس کسمپرسی کی حالت سے گزر رہا ہے  اور ، اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو، مگر کل وہ بھی اسی طرح کے حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ایک اور   نتیجہ جو اس صورتحال سے ایک عام آدمی نکال سکتا ہے وہ یہ ہے کہ بظاہر شاندار نظر آنے والی شو بز کی دنیا میں ہر فرد لاکھوں اور کروڑوں پتی نہیں بلکہ یہ دنیا اپنی  بہت بڑی تعداد  کو صرف دو وقت کی روٹی روزی ہی  فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ہر فرد لاکھوں میں کما رہا ہوتا تو یقیناً وہ  کچھ پس انداز بھی کرتا  ، کہیں سرمایہ کاری وغیرہ کرتا اور کیرئیر کے اختتام ہو جانے کے بعد کسی کی محتاجی سے بچا رہتا۔

ناکام ریاست کی بڑی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ  وہ اپنے محروم کو نہ تو انصاف دے سکتی ہے ، نہ سیکیورٹی اور نہ ہی باعزت روزی اور روزگار۔

آج سے چودہ سو سال پہلے کی مدینہ کی  اسلامی ریاست نہ صرف  مسلمان کو بلکہ اپنے ہر بوڑھے، معذور  کو، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، پنشن ادا کرتی تھی جبکہ بچوں تک کو وظیفہ دیا جاتا تھا۔ یہ کردار اب مسلم ریاست سے نکل کر یورپ اور امریکہ کہ غیر مسلم ریاستوں نے اختیار کر لیا ہے کہ ان کا ہر خاص و عام، کالا اور گورا، پنشن اور وظائف پاتا ہے۔ حضرت عمر کے دور کے اس غیر مسلم ضعیف  کے بارے میں تو سنا ہو گا جو بھیک مانگ رہا تھا۔ جب استفسار پر حضرت عمر کو بتایا گیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اسے نہ تو زکو   ٰۃ دی جا سکتی ہی اور نہ ہی اس کا وظیفہ مقرر ہے تو حضرت عمر نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کی جوانی میں ہم ان سے جزیہ کی وصولی کی صورت میں فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں انہیں حالات کے رحم  و کرم پر چھوڑ دیں۔ انہوں نے اسی وقت تمام غیر مسلم بوڑھوں کی فہرستیں مرتب کروائیں اور انہیں پنشن جاری کی جو تادم مرگ انہیں ملتی رہتی۔  یہ ایک کامیاب ریاست کا ماڈل ہے جو اپنے محروم شہری کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے۔کامیاب ریاست مزید کامیاب ریاستوں کو جنم دیتی ہے جبکہ  ناکام ریاستوں میں وسائل کا دھارا اس کے حکمرانوں اور باوسائل لوگوں کی طرف مڑا ہوتا ہے۔ ایسی ریاست بالآخر تاریخ کے صفحات میں دفن ہو جایا کرتی ہے۔ پاکستان میں  بااختیار  افراد  اور حکمرانوں کے لئے  وسائل کی کوئی کمی نہیں بلکہ وہ  ہن دولت سے لتھڑے پڑے ہیں جبکہ خواجہ سلیم صاحب جیسے سفید پوش افراد حالات کے جبر کا شکار ہیں اور اپنی محرومیوں کے حل کے لئے اس اندھی  و بہری حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں جو اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کو دیکھ نہیں سکتی اور اپنے علاوہ کسی اور کے دکھ کو سننے کی  صلاحیت سے محروم ہے۔ 

Thursday, May 30, 2024

MANUFACTURING FAULT - بنیادی نقص

 

جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر انجنیئر حافظ نعیم الرحمن صاحب اس وقت ملک میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے غزہ ملین مارچز سے خطاب کر رہے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے پشاور میں پورے صوبہ خیبر پختونخوا سے جمع ہونے والے جماعت اسلامی   کے کارکنان کے غزہ مارچ سے خطاب کیا  ہے۔ نتائج اور اثر پذیری سے قطع نظر، فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف پاکستان میں بلند ہونے والی شاید  واحد آواز جماعت اسلامی یا اس کی ذیلی تنظیموں کی ہی ہے۔یہ بھی جماعت اسلامی کی ہی خاصہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو اثر انداز کرنے والے کسی بھی مسئلے  پر سب سے توانا آواز یہی  جماعت بلند کرتی ہے مگر یہ حیرت ناک  امر ہے کہ مقامی مسائل پر ، جو پاکستان کے عوام کو  براہ راست متاثر کرتے ہیں، جماعت اسلامی کی  آواز و لب و لہجہ اتنا پر اثر نہیں ہوتا جو بین الاقوامی معاملات پر ہوتا ہے۔ اس کا لازمی  نتیجہ جماعت اسلامی کو عام انتخابات میں  عمومی ناکامی کی صورت میں کرنا پڑتا ہے ۔ اپنا ایک بین الاقوامی وجود ثابت کروانے والی جماعت کو پاکستانی عوام کسی مقامی سطح کی  نمائندگی کا حقدار نہیں سمجھتے۔ ماضی بعید  میں ملکی سطح پر جماعت اسلامی ایک مٔوثر  پریشر گروپ رہی ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس کے اکا دکا نمائندے نظر آتے رہے ہیں  مگر موجودہ وقت میں ملکی سطح پر نہ تو اس کا دبائو کہیں محسوس کیا جارہا ہے    اور نہ ہی پارلیمان  میں اس کی  کوئی نمائندگی موجود ہے۔

حافظ نعیم الرحمان صاحب نے جب اپنی عملی سیاست  کا آغاز کراچی سے کیا تو  لوگوں نے انہیں کبھی  کے الیکٹرک کی پالیسیوں پر تنقید کرتے دیکھا اور کبھی وہ  بحریہ ٹائون اور کراچی واٹر بورڈ کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دئیے۔ کبھی وہ کراچی  میں ہر سو پھیلی گندگی پر کراچی بلدیہ  کو آڑے ہاتھوں لیتے نظر آئے اور کبھی وہ بااختیار بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لئے سندھ اسمبلی کے باہر اور عدالتوں لے اندر گرجتے برستے نظر آئے ۔ وہ جس بھی معاملے پر بولے، خوب بولے اور ان کی آواز نہ صرف مقتدر حلقوں میں سنی گئی بلکہ عوام میں بھی ان کا بیانیہ مقبولیت حاصل کرتا گیا  ۔اس کا عملی نتیجہ کراچی کے بلدیاتی اور پھر عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی عام مقبولیت  کی صورت میں سامنے آیا اور ریاست و ریاست کی اداروں نے جماعت اسلامی کو کراچی کا ایک مئوثر سٹیک ہولڈر تسلیم بھی کیا۔

شاید حافظ نعیم الرحمن صاحب کی کراچی میں مقبولیت کا ہی اثر تھا کہ جماعت اسلامی کے ممبران نے انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کر لیا۔ مگر حیران کن   طور پر پورے ملک کے امیر بننے کے بعد وہ  بجلی و گیس کی ناقابل برداشت قیمتوں اور لوڈ شیڈنگ، مہنگائی و بے روزگاری ،حکومت کی مزدور کش پالیسیوں اور دیگر عوامی نوعیت کے مسائل پر ڈھیلی ڈھالی پریس کانفرنسز تو کرتے نظر آ رہے ہیں ، مگر ملین مارچ  انہوں نے غزہ جیسے بین الاقوامی معاملات پر کرنا مناسب سمجھا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ پشاور کے غزہ مارچ میں وہ  64 لاکھ آبادی کے شہر پشاور میں وہ  چند ہزار لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور وہ بھی پورے صوبہ خیبر پختونخوا سے ۔  حاضری سے  آشکار ہے کہ پشاور کے  عام شہری کی غزہ ملین مارچ  سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی   گرچہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر وہ بھی اتنا ہی دکھی ہے جتنا کہ جماعت اسلامی کا کوئی کارکن۔

یہ  ناقابل فہم نہیں کہ پشاور میں جمع ہو کر نعرے بلند کرنے والے ایک لاکھ افراد کے مقابلے میں یوگنڈا و موزمبیق   وغیرہ جیسے ناقابل ذکر ممالک میں تعینات حکومت پاکستان کے ایک سرکاری نوکر یعنی کسی سفیر وغیرہ  کے جاری کردہ پریس نوٹ  کی زیادہ اہمیت ہے تو پھر جماعت اسلامی کی ترجیح پشاور میں ایک لاکھ افراد کو جمع کرنے کے بجائے حکومت پاکستان کے تمام سفیروں پر  اور تمام مشینری پر کنٹرول حاصل کرنا کیوں نہیں، یہ یقیناً ناقابل فہم ہے۔

جماعت اسلامی کی قیادت سے یہ بات  ڈھکی چھپی نہیں ہو سکتی  کہ پارلیمان کے بالا اور زیریں ایونوں کے سینکڑوں ارکان کی موجودگی میں اس کے صرف ایک سینٹر مشتاق احمد خان صاحب کی  نہ صرف بات کو  پورے پاکستان میں سنا اور محسوس کیا جاتا تھا  بلکہ وہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ  امریکہ و مصر  و لبنان وغیرہ جا کر جماعت اسلامی کی کوششوں کے لئے سرکاری  مشینری کی سپورٹ بھی فراہم کرتے رہے۔ان کی سینٹ سے رکنیت کے خاتمے کے بعد اب جماعت اسلامی کو وہ ایڈوانٹج حاصل نہیں رہا۔ تو پھر جماعت اسلامی ایسی  حکمت عملی کیوں نہیں اپناتی کہ پارلیمان کے بالا و زیریں ایوانوں میں  اس کے کئی مشتاق احمد خان ہوں اور پوری  دنیا میں ان کی گھن گرج بھی سنائی دے اور ریاستی مشینری بھی ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہو۔

 ایسا صرف تب ہی ممکن ہو سکتا ہے  جب جماعت اسلامی کو عوامی مقبولیت کا کندھا حاصل ہو اور وہ پارلیمان میں پہنچ کر نہ صرف اپنے بین الاقوامی ایجنڈے کی پیروی کر سکے بلکہ ملک کے اندر بھی اس کی سنی جائے اور اس کے وجود کو محسوس کیا جا سکے۔  

عوامی مقبولیت کا حصول  بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔ آپ عوام کی بولی عوام کے الفاظ میں بولیں تو عوام آپ کو اپنی سر آنکھوں پر بٹھانے کےلئے تیار ہوں گے اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر آپ ملکی و بین الاقوامی معاملات میں ذیادہ مئوثر کردار ادا کر سکیں گے۔ عوامی مقبولیت کے حصول کے لئے جماعت اسلامی کو اپنے بین الاقوامی ایجنڈے کو  فی الحال ثانوی حیثیت  پر رکھنا ہو گا اور  اولین ترجیح   ان معاملات کو دینی ہو گی جو عوام کو براہ راست متاثر کر رہے۔ دوسرے الفاظ میں ،یہ معاملات عوام کی دکھتی رگ ہیں اور ان پر ہاتھ رکھنے والا کوئی بھی نبض شناس ،  عوام کی مجموعی  سپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔ 

یہ مانا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کی  سرگرمیوں کی سمت جماعت اسلامی کی شوریٰ طے کرتی ہے  اور جماعت اسلامی کا امیر بھی جماعت کی شوریٰ کی طے کردہ سمت میں ہی  چلتا ہے  یا  چلنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر چہ جماعت اسلامی  کی شوریٰ میں موجود  اکثر افراد متوسط طبقے کے عوام میں  سے ہوتے ہیں مگر یہ ایک لاینحل سوال ہے کہ وہ عوام کی طرح سوچنے سے قاصر کیوں ہوتے ہیں ۔ ان کی سوچ ایک خاص دائرے سے باہر نکلنے اور عام عوام کی سطح  پر آنے سے کیوں  منکر ہوتی ہے۔ ان صاحبان کے لئے امریکہ  و روس کی پالیسیوں  پر مباحثہ کرنا، برطانوی و ہندی  تعلقات کے مسلمانوں  پر متوقع اثرات کا جائزہ لینا، چین کے   افریقہ میں بڑھتے اثرات  میں افریقہ کی مسلمان ریاستوں کی ترجیحات   پر غور و  فکر کرنا یا کم از کم  پان اسلامز م کی تحاریک  اور مسلمہ امہ   کے رد عمل  پر اظہار رائے کرنا  آسان معلوم ہوتا ہے مگر ان  کےلئے ایک ریڑھی بان کا بجلی  و گیس کا  بل، مزدور کے بچے کی سکول کی فیس و کتابیں،  کسی دیہاڑی دار کے علاج معالجے کے خرچ   کی فکر یا کسی عام پاکستانی  کا ریاستی و غیر ریاستی دہشتگردی  کے خطرات سے دوچار ہونا  شاید  نسبتاً غیر اہم  ہوتا ہے اور وہ ایسے معاملات کو اپنی بحث کا مرکز بنانا مناسب نہیں سمجھتے۔ اس کی واحد قابل فہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شوریٰ کے ارکان کی اکثریت عوامی لوگ نہیں ہوتے۔ نہ ہی انہوں نے عوامی سطح پر سیاست کی ہوتی ہے اور نہ عوام کے تھانہ کچہری کے مسائل کے حل کے لئے کوئی دوڑ دھوپ جبکہ جماعت اسلامی میں فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس ہے۔  ایسی صورت حال میں مستقبل قریب میں بھی ایسا ممکن نہیں  دکھائی دیتا کہ جماعت اسلامی کی شوریٰ کا کوئی عوام مزاج  اپنانے کا امکان ہو۔  یہ وہ بنیادی نقص ہے جو جماعت اسلامی کو ایک مقبول عام سیاسی جماعت  نہیں بننے دیتا اور جماعت اسلامی اپنی تمام تر نیک نامی، اپنے کارکن کے خلوص نیت  اور انتھک محنت کے باوجود ملکی سطح کی پہلی پانچ جماعت میں بھی اپنی جگہ بنانے سے قاصر ہے۔

ایسے میں  کراچی کے عوامی مسائل کو گھر و حجرے سے نکال کر چوک و چوراہے اور ایوان و عدالت تک پہنچانے والے حافظ نعیم الرحمان صاحب کو ہی کچھ پیش قدمی کرنی ہو گی اور   موجودہ حالات اور تحریک انصاف کی ٹوٹ پھوٹ  کی شکل میں پیدا ہونے والے متوقع خلا  کو پر کرنے کے لئے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو بین الاقوامی سے  کم کرکے مقامی سطح پر لانا ہو گا۔  فارم 47  اور  45 کا معاملہ بھی اہم ہے مگر آئی پی پیز سے کئے گئے ناروا معاہدے، بجلی و گیس کے ہوشربا بل، مہنگائی  اور بیروزگاری کا  طوفان  اور ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت ، جسے ریاستی سرپرستی حاصل ہے،  وہ سلگتے مسائل ہیں جن پر بات سننے کے لئے لوگوں کے کان ترس رہے ہیں۔ لوگ اس  مسیحا کے انتظار میں ہیں جو آئے اور سرمایہ داروں  و جاگیرداروں اور سرکاری اہلکاروں (فوجی و سویلین ) کی تکون کی طرف سے  معاشرے کی رگوں میں گھول دئیے گئے  زہر کا تریاق پیش کرے۔

آپ نے مہینہ بھر کی کوشش ، اپنی جماعت اور اپنے کارکن کے لاکھوں کے وسائل کے  استعمال  اور  اپنی پوری صوبے کی تنظیم کو استعمال کر کے پشاور میں چند ہزار افراد  جمع کئے مگر میں آپ کو  یقین دلاتا ہوں کہ آپ مہنگائی و بے روزگاری یا بجلی  و گیس کے بلوں  کے خلاف جلسے کے لئے صرف وقت اور مقام کا اعلان کریں اور پھر دیکھیں کہ لاکھوں لوگ اپنے خرچ پر جمع ہوتے ہیں یا نہیں۔ ان لاکھوں لوگوں کے سامنے غزہ کے مظلوموں کے لئے آواز بلند کرنے، مسلم امہ    کام مقدمہ پیش کرنے یا کشمیر  و عراق و شام  کا ذکر کرنے پر ہر گز کوئی پابندی نہیں ہو گی، مگر مرکزی نقطہ عوامی مسائل  ہی رہے تو   تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر آپ عوام کے سامنے ہوں گے۔ آپ عوامی مسائل پر بھی ایک ملین مارچ کر کے دیکھیں ، آپ مارچ لے کر اسلام آباد جائیں گے تو یقین رکھیں عوام آپ کو ڈی چوک پر نہیں چھوڑیں  گے بلکہ اس کے سامنے موجود سفید رنگ کی عمارت کے اندر پہنچا دیں گے۔ ایسے میں  ریاستی وسائل ، ادارے  اور  افراد آپ کی  طرف  انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکیں گے بلکہ  ایک پالتو  کتے کی طرح آپ کے آگے پیچھے دم ہلاتے پھریں گے ۔ تب آپ  کے پاس موقع بھی ہوگا، وسائل بھی ہوں گے اور اختیار بھی ہو گا کہ مقامی کے ساتھ ساتھ اپنے بین الاقوامی ایجنڈے  کی بھی پیروی کرتے رہیں۔

Monday, May 27, 2024

(The Ikhwan’s Dilemma) اخوانیوں کا المیہ

 





اخوانیوں کا المیہ

سیاسی اسلام کے کلید برداروں کو دنیا میں بالعموم اخوانیوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ سید محمد قطب شہید،  حسن البنا شہید اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر  سے فیضیاب ہونے والے   اخوانی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند (بشمول سری لنکا) میں انہیں جماعت اسلامی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مشرق بعید میں وہ  ماسیومی اور پان اسلامک تحاریک  جبکہ افریقہ اور عرب دنیا میں اخوان المسلمین کے نام سے معروف ہیں ۔  ترکیہ میں  ان ہی کا ایک آف شوٹ   آک پارٹی کے نام سے گزشتہ 20سال سے  برس اقتدار ہے ۔ ایران کا  اسلامی انقلاب گو کہ  اخوانی نہیں بلکہ سنی بھی نہیں مگر اس  کے ساتھ اخوانیوں  کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں ۔ اخوانی  بجا طور پر اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ تقریباً  تما م ہی اسلامی ممالک میں  نہ صرف وہ موجود ہیں بلکہ ان کے وجود کو محسوس بھی کیا جاتا ہے ۔

مگر اخوانیوں  کا المیہ یہ ہے کہ وہ ، ترکیہ کے استشناء کے ساتھ، دنیا کے کسی بھی ملک میں کامیابی سے اقتدار حاصل نہیں کر سکے، اور اگر حاصل کیا ہے تو اسے برقرار نہیں رکھ سکے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ کم و بیش ہر جگہ پر وہ بے رحم حاکموں  اور ریاستی طاقتوں  کا تختہ مشق بنے رہے ہیں بلکہ بنے ہوئے ہیں مگر  اخوان قیادت اپنے  بے گناہ   اخوانیوں کی جان و مال کی حفاظت کی کوئی تدبیر نہیں کر سکی ۔ اخوانی اپنی تحریر و تقریر میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رول ماڈل گردانتے  ہیں ۔ ہم اگر محمد عربی  کی تحریک   کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان  کی تحریک کا اٹھا ہوا ہر قدم اسے  ملکی اقتدار کے قریب لے گیا اور بالآخر انہوں نے صرف ایک ملک پر نہیں بلکہ دنیا کے طول و عرض میں اپنے رب کا اقتدار قائم کر دیا اور وہ بھی ۲۰ – ۲۵ سال کے مختصر وقت میں جبکہ   اخوانی مختلف علاقوں میں  عشروں سے  سرگرم عمل  ہیں مگر انہیں  اقتدار پر گرفت  تو کیا حاصل ہو، وہ ہر  جگہ ایک نہ ختم ہونے والے ظلم و تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔

غزہ اس کی اندوہناک  ترین مثال ہے۔غزہ کے اخوانی جو حماس کے نام سے جانے جاتے ہیں، تمام  فلسطینیوں کے نمائندہ بھی نہیں۔ اسرائیلی قبضے سے بچ جانے والے فلسطین کے  اکثریتی علاقے (ویسٹ بینک ) پر  یاسر عرفات کی سیکولر پارٹی الفتح کی حکمرانی ہے جبکہ حماس کا کنٹرول صرف غزہ کی پٹی پر ہے اور اسی  پٹی ہر دوسرے سال اسرائیلی فورسز  آگ و خون کا بازار گرم کر دیتی ہیں۔ بظاہر حماس وغیرہ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں عاجز نظر آتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں عام فلسطینی  آج بھی موت کا سامنا کررہے ہیں۔  حیرت اس بات ہوتی ہی کہ اگر حماس جنگ کی طاقت نہیں رکھتی تو  کیا محمد عربی کی سیرت سے ہمیں یہ سبق نہیں ملتا کہ خفیہ دعوت کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے، ہجرت کر کے کسی دوسری سرزمین پر اقتدار قائم کیا جائے یا کسی کے ساتھ اشتراک کا معاملے کیا جائے اور معقول طاقت حاصل کرنے کے بعد مقابلے میں اترا جائے ، پھر  چاہے وقت کی سپر پاور ہی مدمقابل کیوں نہ ہو، جم کے مقابلہ کیا جائے۔   مگر غزہ میں ہزاروں بے گناہ شہید  و زخمی ہوتے رہتے ہیں مگر حماس اس  معاملے کو سلجھانے سے قاصر نظر  آتی ہے۔

یہ صرف غزہ تک محدود نہیں۔ اس سے پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کشمیر میں جماعت اسلامی نے اپنے کارکنان کو ایک  ایسی جنگ میں اتارا جہاں انہیں صرف دشمن کے خلاف نہیں ، اپنے لوگوں کے خلاف  بھی جنگ  لڑنا   پڑی۔ برصغیر کے اخوانیوں  (جماعت اسلامی)نے  اپنے کارکنان کوتنخواہ دار فوجیوں کے لئے ڈھال بنا کر پیش کیا۔ جس کام کے لئے کھربوں کا بجٹ استعمال کرنے والی فوج رکھی ہوئی ہے، وہ ان اخوانیوں نے اپنے کارکنان سے کروانے کی کوشش کی۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں  ہلاک ہونے والے  ہزاروں بے گناہ اخوانیوں کا خون  یہاں کی اخوان قیادت کے ہاتھوں پر ہے جبکہ کشمیر میں تاحال صورت حال ویسی ہی ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش  بن چکا مگر 50 سال بعد آج بھی وہاں کے اخوانی  اپنی قیادت کے صحیح یا غلط فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں ۔

یہ صرف جماعت اسلامی پاکستان  نے  ہی نہیں کیا۔ مصر میں پہلے انوارالسادات، پھر حسنی مبارک اور اب عبدالفتح السیسی  کی ریاستی طاقت کے سامنے ایک عام اخوانی کو کھڑا کروا نے کی کوشش کی گئی۔ اخوان قیادت نے خود بھی ریاستی جبر کا سامنا کیا اور اپنے کارکن کو بھی  موت و   قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔مصریوں نے تو انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا بھی دیا تھا،  مگر اخوانی اقتدار پر اپنی گرفت برقرار نہ رکھ سکے۔ مصری اخوانیوں نے  کیسی  حکمت عملی   اختیار کی کہ اقتدار تو چھن  ہی گیا مگر ان کے ہزاروں بے گناہ کارکنان موت سے ہمکنار کر دیئے گئے یا قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہیں؟

معاملہ صرف مصر تک ہی محدود نہیں۔ شام میں پہلے حافظ الاسد نے اور پھر اس کے بیٹے  بشار الاسد نے بے گناہ  اخوانیوں کا بھیڑ بکریوں کی طرح قتل عام کیا۔ماضی قریب میں،بشار الاسد نے  حومص شہر کو ، جو اخوانیوں کا مرکز تھا، ملیا میٹ کر کے رکھ دیا اور لاکھوں بے گناہ شامی اخوانیوں کو  قتل کیا جبکہ ہزاروں اب بھی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے  ہیں۔ 

شام ،مصر ، پاکستان  اور غزہ  ہی نہیں، اس سے پہلے الجزائر(الجیریا)  میں کم و بیش یہی صورت حال پیش آئی۔ 1991 کے قومی و بلدیاتی   الیکشن تو اخوانی جیت گئے تھے  مگر بوجوہ  اقتدار حاصل نہ کر سکے ۔انہوں نے  اپنی دانست میں معقول فیصلہ کرتے ہوئے،  اسلامک سالویشن آرمی بنائی اور 10 سال تک ریاست پر قابض فوجیوں کے خلاف لڑتے رہے جس میں لاکھوں  کی تعداد  میں عام  الجزائری  بھی ہلاک ہوئے  اور اخوانی بھی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ الجزائر کےمنظر نامے پربظاہر  اب اخوانیوں کا کوئی وجود باقی نہیں۔

سوڈان میں بھی یہی صورت حال رہی۔  اخوانی اقتدار تک  تو پہنچ گئے مگر حیران کن طور پر اپنے ہی مقرر کردہ حاکم عمر البشیر کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہو گئے اور ایک سابق اخوانی ہونے کے باوجود بھی عمر البشیر نے ریاستی قوت کو اخوانیوں کے خلاف استعمال کرنے میں کسی بخل سے بالکل بھی کام نہیں لیا۔

کہنے کا مقصد  یہ بالکل بھی نہیں کہ اخوانیوں کو ان جابر حکمرانوں کی کاسہء لیسی کرنی چاہئے تھی اور اپنی جان بچانی چاہیے تھی،  بلکہ کہنا  یہ ہے کہ اخوانی قیادت نے کہیں پر بھی  اپنی طاقت کو  کیپٹلائز نہیں کیا، کوئی واضح ہدف مقرر کر کے اس تک پہنچنے کی مربوط منصوبہ بندی نہیں کی، اپنے کارکن کو ریاستی جبر کا مقابلہ حکمت سے کرنے   اور اپنی طاقت کو محفوظ رکھ کر صحیح وقت پر صحیح انداز میں استعمال کرنے کا طریقہ نہیں سکھایا، افغانستان کے دیوبندی طالب کی طرح وقت کی سپر پاور سے اقتدار  چھیننے کا گر  نہیں سکھایا ،  ترکیہ کے سابق اخوانیوں کی طرح حکمت کے ساتھ ریاست پر کنٹرول حاصل کرنا نہیں سکھایا  بلکہ  اپنے   عام کارکن کو مجاہد بنا کر، اسے شہادت اور جنت کی بشارتیں سنا سنا کر ،  بغیر کسی تیاری کے ریاست کے مقابل کھڑا کر کے اسے  ناحق موت سے دوچار کیا ہے۔

 اخوانی نہ تو اپنے ترک بھائیوں سے کوئی سبق سیکھنے کے لئے تیار ہیں  کہ پرامن طریقے سے اقتدار کیسے حاصل کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہوں نے افغانستان کے سکہ بند دیوبندیوں سے کوئی سبق حاصل کیا ہے کہ ملٹری/گوریلا  طاقت کو کیسے اقتدار حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔