کیمروں اور فلموں اور ڈراموں کی دنیا کو بالعموم روشنیوں کی دنیا کہا اور مانا جاتا ہے اور لاکھوں نوجوان اس لائم لائٹ مِیں آنے کے خواب دیکھتے دیکھتے جوانی اور بڑھاپے کی منزلیں طے کرتے ہیں مگر درحقیقت اس سے تاریک اور وحشت ناک دنیا دوسری کوئی نہیں۔ حال ہی میں ٹیلیویژن کی معروف سینئر ادکارہ عائشہ خان اور پھر اس کے بعد ایک نوجوان ادکارہ حمیرا اصغر کی دردناک اموات ان سب افراد کے لئے باعث عبرت ہونی چاہیں جو روشنیوں کی چکا چوند، کیمروں کے لش پش اور میک اپ کی سرخی و تابانی کو حقیقت سمجھ کر دن رات اس کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ درجنوں کی تعداد میں کسمپرسی و لاچاری کا شکار ادکار و فنکار ، جو جوانی کے ڈھل جانے اور آواز کی کھنک ختم ہو جانے پر تنگ و تاریک کمروں کی قیدی بنے ہوئے ہیں ، زبان حال سے اس بات کی گواہی دیتے نظرآتے ہیں کہ بظاہر چمکتی دمکتی فلم و فن کی دنیا درحقیقت کتنی تاریک ہے۔
مذکورہ بالا دونوں اموات نے یہ حقیقت طشت از بام کر دی ہے کہ فن کی
دنیا صرف چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ اگر آپ کا حسن اور صحت برقرار ہے، آپ کی آواز کی کھنک سننے والوں کو محظوظ کر
سکتی ہے اور آپ روشنیوں کی بہائو کے درمیان چمکتے دمکتے دکھائی دے سکتے ہیں تو آپ قیمتی ہیں
ورنہ آپ کی لاش اگر سال چھ مہینے تک کسی تنگ و تاریک فلیٹ میں گلتی سڑتی
بھی رہے تو پلٹ کر پوچھنے والا بھی کوئی نہیں کہ آپ پر کیا گزری۔
حمیرا اصغر کی موت کا دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ اول اس کے خاندان نے اس کے مردہ جسم بلکہ گلی سڑی
لاش کو اپنانے سے انکار کیا اور اگر کسی معاشرتی دبائو یا أولاد کے دبی محبت کی
وجہ سے انہوں نے وہ لاش وصول تو کر لی اور اس کے کفن دفن کا بھی انتظام کر دیا مگر
یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ایسا انہوں نے کس دل کے ساتھ کیا ہے۔
والدین کے لئے اپنی زندگی کی کل متاع ان کی أولاد ہوتی ہے۔ فیمنزم اور
میرا جسم میری مرضی کی پرچارک آنٹیوں نے نوجوان نسل کو خاندان سے بغاوت اور اپنی
زندگی اپنی مرضی سے جینے کے ایسے غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کا انجام تباہی
کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے حمیرا اصغر کے سفید ریش باپ نے اس
کے ہاتھوں کتنے درد سہے ہوں گے، کتنی تکالیف برداشت کی ہوں گی اور کتنی بے کسی سے
اس سے کنارہ کشی اختیار کی ہو گی کہ میری بیٹی میرا جسم میری مرضی کے جس راستے پر
چل پڑی ہے وہ مجھے قبول نہیں۔ ہر حیادار شخص اپنی بیٹی کو بالخصوص عزت اور حیا کے ساتھ زندگی گزارتے
دیکھنا چاہتا ہے۔ فیمینزم کے پرچارک اس کے والدین اور بھائی کے دقیانوسی ہونے پر
خوب لعنت ملامت کر رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس باپ اور بھائی نے کتنی کوشش
کی ہو گی کہ ان کی بہن بیٹی حیاکی چادر کو سر سے نہ اتارے اور اسلامی و مشرقی
روایات کے ساتھ اپنی زندگی گزارے مگر یقینا وہ اسے روشنیوں (درحقیقت اندھیروں ) کی
دنیا میں جانے سے روکنے میں ناکام ہوئے ہوں گے اور بالآخر معاملہ قطع تعلق تک پہنچ
گیا ہو گا۔
موت کے بعد مردے کی صرف اچھائیاں بیان کرنا نہ صرف ہمارے دین کی تعلیم ہے بلکہ معاشرتی روایت بھی ہے، ہم بھی
اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ مرحومہ پر اپنا فضل و کرم فرمائے اور جو تکلیف اس نے اور
اس کی میت نے اس دنیا میں برداشت کی ، اس کے بدلے اسے اپنی رحمتوں سے نوازے مگر
تمام نوجوانوں ، مرد و خواتین ، کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ اگر آپ اپنے جسم پر
اپنی مرضی کے موجودہ نظریات کی پیروی کریں
گے اور والدین و معاشرتی روایات اور دینی
ہدایات سے بغاوت کریں گے تو پھر معاشرہ آپ کے والدین کو گناہ گار ٹھہرانے میں حق
بجانب نہیں ہو گا کہ جس زندہ جسم پر آپ
اپنی مرضی چاہیں ، اس جسم کی موت ہو جائے تو وہ آپ کے والدین یا خاندان کی ذمہ داری
ہو۔
No comments:
Post a Comment