Search This Blog

Wednesday, March 16, 2011

خوش رہو ریمنڈ ڈیوس

Raymond-Davis اگر ایک تھانے کے ایس ایچ او سے لے کر ملک کے صدر تک تمام بضد ہوں کہ تین بے گناہ پاکستانیوں کے خون کی قیمت زبانی کلامی معافی تلافی یا پھر سفارتی استشناء سے بڑھ کر کچھ نہیں تو پھر ریمنڈ اور اس کے ہموطنوں کی جانب سےمقتولین کے ورثاء کے لئے ۳۷ کروڑ کی دیت،ان کی آنے والی نسلوں تک کے لئے تعلیم و روزگار سب کچھ کا وعدہ، ہر متاثرہ خاندان کے دو افراد کے لئے خوابناک امریکی گرین کارڈ کی فراہمی وغیرہ وغیرہ وہ انعامات ہیں جس کے لئے ہم امریکہ کے شکر گزار ہی نہیں احسان مند بھی ہیں۔ اب اگر کوئی لاکھ کہے کہ ملکی حمیت کا کیا ہوا، دنیا میں باوقار اور سر اٹھا کر جینے کی موہوم پاکستانی خواہش کیسے قربان ہوئی یا اس امریکی اٹارنی کے دعوے کہ پاکستانی دس ڈالر کے لئے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں ، پر مہر تصدیق ثبت کرنے اور دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سامان کرنے کا شرمناک فعل کیسے انجام پایا تو یہ سب ثانوی باتیں ہیں جن کا مفاد کے تابع رہنے والے مادہ پرستوں کو کوئِی سروکار نہیں۔ حیرت تو بجا ہے مگر واقعہ حیران کن ہرگز نہیں۔ ڈالروں کے لئے اپنی غیرت و حمیت کی جو سوداگری نوازشریف نے ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کر شروع کی تھی اور جسے سابقہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے نئی جہتوں سے روشناس کرایا تھا، اب اس بدقسمت پاکستانی قوم کے ماتھے پر لگا کلنک کو وہ ٹیکا ہے جو رہتی دنیا تک ہر خاص وہ عام میں ہمارے تعارف کا باعث ثابت ہو گا۔

دنیا نے کبھی ہمارے ایک قوم یا ملت ہونے کے دعوے کو دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور ہم نے بھی نہیں چاہا کہ ہماری پہچان ایک حقیقی قوم کی حیثیت سے ہو جس کی غیرت اس کی خواہش نفس سے بڑھ کر اور ضروریات زندگی سے ماورا ہوتی ہے۔ ہم تو سنگاپور کی اس شہری ریاست سے بھی گئے گزرے ہیں جس نے ہر قسم کے امریکی دبائو کو جوتے کی نوک پر  رکھا اور نہ صرف گرفتار امریکی کو ٹرائل کیا بلکہ عدالت سے دی گئی سزا کو بھی نافذ کر کے دکھایا۔ مگر سنگاپور اور پاکستان میں فرق بھی تو بہت ہے، وہ ایک چھوٹے سے شہر پر مشتمل ملک ہے جس کی زیادہ زیادہ چوڑائی ۲۸ میل اور کل رقبہ ۷۱۰ مربع کلومیٹر جبکہ پاکستان لاکھو ں مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے جس کی ۱۱ لاکھ  ریگولر اور پیراملٹری فورس دنیا کی چھٹی بڑی قوت سمجھی جاتی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو اتنی بڑی فورس ہی ہمارے بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ ہے، ریمنڈ کا معاملہ بھی جب تک سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں رہا، وہ گرفتار بھی ہوا، عدالت میں پیش بھی ہوا ، اس کا ریمانڈ بھی دیا گیا اور اسے جیل میں بھی ڈالا گیا مگر جوںہی ہماری مقتدرہ ایجنسیاں اس میں ملوث ہوئیں آلہ دین کے چراغ کے جن مانند سب کچھ لمحوں میں بدلا اور ریمنڈ کے بارے ہمیں تب پتہ چلا جب وہ باگرام ایئر بیس پر پہنچ چکا تھا۔

ہم یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا سکتے ہیں کہ یہ ہماری قسمت کا لکھا ہے مگر ہم اس الزام سے کیسے بچ پائیں کہ یہ قسمت ہم نے خود ہی تو تخلیق کی ہے

1 comment:

  1. really very heart touching post. i will say that from whome we want justic and who will provide us pakistan govt or america, and the question is the that where is the chief justice now?? is he dont know about this or he also became the best friend of america
    http://www.jobz.pk

    ReplyDelete