Search This Blog

Thursday, February 4, 2016

Bab-e-Peshawar Flyoverباب پشاور فلائی اوور

سورے پل (شیر شاہ سوری پل) پر تعمیر ہونے والا ملک سعد فلائی اوور متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے کم و بیش پانچ سال کی مدت میں مکمل کیا تھا جبکہ اس سے متصل چارسدہ روڈ اور صدر کو ملانے والا مفتی محمود فلائی اوور کی تعمیر کوشش بسیار کے بعد ۷ سال میں ممکن ہو سکی اگر چہ نک سک کی درستگی کا کام آج آٹھویں سال میں بھی جاری ہے۔ ان دونوں فلائی اوورز کی لمبائی کے برابر لاہور کا  آزادی چوک فلائی اوور حیران کن طور پر صرف ۹۰ دنوں میں تعمیر کر دیا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا کی مخلوط صوبائی حکومت کے حقیقی سربراہ عمران خان صاحب ہمیشہ ہیکل اساسی (انفراسٹرکچر) کے بجائے انسانی وسائل کی تعمیر کے وکیل رہے ہیں اورشریف برادران کی میٹروز، موٹرویز اور فلائی اوورز پر مبذول توجہ کو ہدف تنقید ہی بناتے رہے تاہم صوبائی حکومت نے پشاور کے حیات آباد موڑ پر باب پشاور کے نام سے فلائی اوور  تعمیر کیا تووہ بنفس نفیس اپنی صوبائی حکومت کے اتحادی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق صاحب کے ہمراہ اس پل کا افتتاح کرنے تشریف لائے اور اب وہ اس پل کو 180دن میں تعمیر کرنے صوبائی حکومت کے اس کارنامے پر پھولے نہیں سماتے۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دونوں ہی کے کارکن اس پل کی تعمیر کا کریڈٹ لینے میں ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کارکنان اسے محکمہ بلدیات کے سینئر صوبائی وزیر عنایت اللہ صاحب کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے  جبکہ تحریک انصاف اسے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب کے ویژن کا عکاس منوانے کی کوششوں میں جتی ہے۔ کریڈٹ کے حصول کی جنگ میں اس پل کی تعمیر میں ہونے والی سنگین مالی بے قاعدگی اور قواعد سے روگردانی کا 'کارنامہ' پس منظر میں چلا گیا ہے۔
قانون و قواعد کی رو سے حکومت اس امر کی پابند ہے کہ وہ عوامی وسائل کی ایک کوڑی بھی خرچ کرنے کے لئے 'کھلی نیلامی/بولی' کا طریقہ کار اپنائے گی جس کے تحت ہر مجاز فرد یا ادارہ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے اور حکومت ان میں سے کم ترین بولی دینے والے ادارے کو وہ ٹھیکہ دینے کی پابند ہے۔ حکومت کوئی بھی ٹھیکہ اپنے من پسند  فرد یا ادارے کو نوازنے کے لئے نہیں دے سکتی۔ مگر باب پشاور فلائی اوور کی تعمیر کی ٹھیکہ فوج کے ایک ذیلی ادارے این ایل سی کو تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیا گیا۔ متعلقہ شعبہ سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ اس پل کی تعمیر کے لئے دی جانے والی مبلغ ایک ارب 70کروڑ کی رقم حقیقی خرچ کا دو گنا ہے۔
کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس پل کو بلا ضرورت تعمیر کیا گیا ہے۔ اس چوک پر ٹریفک کو مسئلہ اتنا گھمبیر نہ تھا کہ اس کے حل کے لئے دو منزلہ فلائی اوور تعمیر کیا جاتا بلکہ شرقا" غربا”  تعمیر ہونے والی ایک زیر زمین گزر گاہ (انڈر پاس) جو صرف چند کروڑ روپے سے تعمیر ہو جاتی ، اس چوک کو سگنل فری بنا سکتی کر ٹریفک کا مسئلہ حل کر سکتی تھی۔ اس پل کے تعمیر سے صرف قریب میں تعمیر ہونے والے عسکری ادارے کے مجوزہ رہائشی منصوبے کی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
پل کی تعمیر ایک اچھا قدم ہے تاہم بہتر ہوتا اگر عمران خان صاحب یا صوبائی حکومت ان دو اہم معاملات کے حوالے  سے بھی پشاوریوں کی تشفی کروا دیتی۔

2 comments:

  1. Agreed, this amount could have been used for several under passes and introduction of alternate routes to divert the huge traffic from university road and saddar road

    ReplyDelete
    Replies
    1. Surprisingly all decision makers of provincial government also argue as such, than don't know who forced them to build this useless infrastructure..

      Delete