Search This Blog

Friday, November 17, 2023

قوموں کی ترقی کا راز

ورلڈ ہیپینس رپورٹ کے مطابق فن لینڈ دنیا کا سب سے خوش و خرم اور انسانوں کی رہائش کے لئے دنیا کا بہترین ملک ہے۔ اس سے پہلے ۲۰۱۰ میں نیوز ویک بھی فن لینڈ کو  انسانوں کے رہنے کے لئے دنیا کا   بہترین ملک قرار  دے چکا ہے ۔

یہ  تقابل  صرف  ریاستی سرمائے،معاشی و فوجی قوت یا وسائل کی دستیابی کی بنیاد پر نہیں  کیا گیا بلکہ  تعلیم و صحت کی سہولیات، معاشی  مسابقت کے  مواقع کی فراہمی،  سیاسی استحکام ، پالیسی سازی میں عوام کی شرکت، کرپشن کےحجم  اور زندگی کے عمومی معیار کو بنیاد بنا کر کیا گیا ہے۔  اس رپورٹ کے مطابق فن لینڈ کا انسانی ترقی کا اشاریہ ( ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس) دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک  امریکہ ، برطانیہ، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک سے بھی کہیں زیادہ بہتر  ہے۔

 دسمبر 1917کو روس سے آزادی حاصل کرنے  والا فن لینڈ ، رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے نصف سے بھی کم ہے(کل رقبہ 3 لاکھ 38  ہزار مربع کلومیٹر )  اور آبادی کے لحاظ سے  پاکستان سے 40 گنا کم  ہے(صرف 56لاکھ  افراد)  مگر فن لینڈ کی جی ڈی پی  پاکستان کےکم و بیش برابر (321بلین ڈالر ) اور فی کس آمدنی پاکستان سے 36  گنا زائد ( 54ہزار ڈالر فی کس) ہے۔  مزے کے بات یہ ہے کہ روس سے آزادی حاصل کرنے والے ، روس کے سرحد پر واقع اور نیٹو کاایک فعال  ممبر ہونے کے باوجود اس ملک کا دفاعی بجٹ صرف4.8     ارب ڈالر  ہے جبکہ فوجی قوت صرف 34,700افراد پر مشتمل ہے ۔ ان فوجیوں  میں سے بھی صرف 25فیصد  (8600 ) پیشہ ور فوجی ہیں باقی رضا کار قسم کے لوگ ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کی فن لینڈ کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ 11لاکھ  سے زائد باقاعدہ فوج، لاکھوں کی تعداد میں پیرا ملٹری فورسز ر(ینجرز، ایف سی، سکائوٹس ، کوسٹ گارڈز، بارڈر فورسز  وغیرہ)، 65لاکھ ریٹائرڈ زندہ فوجی جو  سول بجٹ سے 563ارب روپے کی  پنشن وصول کرتے ہیں، کا فن لینڈ کے ساتھ کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ گو یہ  ایک جملہ معترضہ ہے مگر در حقیقت  دونوں ملکوں کی حیثیت کے تعین میں یہ بنیادی عوامل میں سے ایک ہے۔

انتظامی طور پر پاکستان کی 7 صوبائی /علاقائی حکومتوں کے مقابلے میں فن لینڈ  جیسا چھوٹا سا ملک  19علاقائی حکومتوں پر مشتمل ہے۔ 21کائونٹیز   کا انتظامی  سیٹ اپ اس کے علاوہ ہے جو کم و بیش پاکستان کے صوبائی حکومتی  انتظام  کے مشابہ ہے ۔ پاکستان کے 170اضلاع کے مقابلے میں،  جن کے پاس  انتظامی و مالی اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں، فن  لینڈ 309ایسی بنیادی انتظامی اکائیوں " میونسپلٹیز" پر مشتمل ہے ،  جن کے پاس کل حکومتی وسائل کے  50فیصد سے زائد  خرچ کرنے کا کلی اختیار ہے۔ ہر میونسپلٹی ایک مکمل حکومتی یونٹ ہے جو عوام کے ووٹوں کے ذریعے سے منتخب افراد چلاتے ہیں۔ فن لینڈ کے آئین کے تحت میونسپلٹی کو  مکمل مالی و انتظامی  خود مختاری  حاصل ہے۔ وہ نہ صرف اپنا بجٹ بنانے اور اسے خرچ کرنے  میں خود مختار  ہے بلکہ ٹیکس نافذ کرنے اور اکٹھا کرنے، ترقیاتی منصوبے بنانے ان پرعمل درآمد کرنے اور ریونیو حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی اقدام کرنے کے لئے مکمل طور پر خود مختار ہے۔ میونسپلٹی کے پاس تعلیم (ہمارے  ہاں کے ایلیمنٹری اور ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ)،  لائبریریز (ہمارے  ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ)، امور نوجوانان ( ہمارے  سپورٹس ڈپارٹمنٹ)،  اربن پلاننگ ( ہمارے  پی اینڈ ڈی ڈپارٹمنٹ)، بلڈنگ کنٹرول (ہماری ٹی ایم ایز)، ماحولیات (ہمارے  ہاں کے  انوائرنمنٹ ڈپارٹمنٹ)،  آبی وسائل(ہمارا تقریبا  واپڈا)،   آبپاشی (ہمارے اریگیشن ڈپارٹمنٹ)،  تعمیرات    (ہمارے سی اینڈ ڈبلیو  ڈپارٹمنٹ) اور تکنیکی امور  (ہمارے انڈسٹریز ڈپارٹمنٹ ) جیسے وہ بڑے بڑے معاملات ہیں جنہیں پاکستان میں  صوبائی اور مرکزی حکومتیں سرانجام دینے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ فن لینڈ کی   21کائونٹیز کے پاس سماجی بہبود (ہمارے سوشل و پاپولیشن ویلفئیر)،  صحت (ہمارے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ) اور ریسکیو سروس (ہمارے  ریلیف ڈپارٹمنٹ )جیسے معاملات نمٹانے کے اختیارات ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فن لینڈ میں فیصلہ سازی و انتظامی و مالی اختیارات کہاں پر ہیں۔

یہ صرف فن لینڈ کی انتظامی سیٹ اپ کی خصوصیت  نہیں ۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی مثال لی جائے تو ایک "شدید" قسم کا مرکز گریز حکومتی نظام عمل پذیر دکھائی دیتا ہے ۔ دنیا کے تقریبا تمام ترقی یافتہ ممالک نے مقامی سطح پر پورا حکومتی نظام  تشکیل دے رکھا ۔ فن لینڈ جیسے چھوٹے ملک کا موازنہ اگر  سپر پاور امریکہ  جیسے معاشی و جغرافیائی بلا (مانسٹر)کی مثال پیش کی جائے تو امریکہ کی  50ریاستوں کو  ریاستیں یا صوبے نہیں بلکہ 50ملک کہنا زیادہ مناسب معلوم ہو گا  کیونکہ ان  ریاستوں کو صرف  مکمل مالی و انتظامی  خود مختاری حاصل نہیں بلکہ عدلیہ ، دفاع ، کرنسی  اور چند قسم کے ٹیکسوں کے نفاذ کے علاوہ تقریباً  ہر معاملہ میں یہ ریاستیں ایک مکمل ملک کا اختیار رکھتی ہے۔   ان میں سے ہر ریاست کا اپنا  آئین ہے، اپنا قانون ہے ، اپنا جھنڈا، اپنا ترانہ، اپنی شناخت اور  اپنا نظام حکومت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ کے آئین کے تحت  ہر ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے  وہ کسی بھی وقت امریکی فیڈریشن سے علیحدگی کا اعلان کرکے ایک آزاد ملک بن سکتی ہے۔  ان ریاستوں کے تحت میونسپلٹیز  کا مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہے ۔   جنکنز (4000 افراد)  اور منیسوٹا( 200 افراد)  کی "حقیر" میونسپل حکومتوں  سے لے کر نیویارک اور لاس اینجلس کی لاکھوں افراد پر مشتمل میونسپل حکومتوں کے پاس  پولیس، ریسکیو، ہائوسنگ، میڈیکل سروسز،  ٹرانسپورٹ،  پبلک ورکس ، تعمیرات، پارکس، کھیل و تفریح حتیٰ کہ میونسپل عدالت قائم کرنے تک کے اختیارات ہیں جن میں امریکہ کی مرکزی حکومت کا کوئی دخل نہیں۔   

فن لینڈ جیسے چھوٹے اور امریکہ جیسے بڑے ملک کے حکومتی نظاموں کی مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے  اگر  ہم پاکستانی " نظام " کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان  میں کل انتظامی و مالی اختیار، حتیٰ کہ  زکواۃ جمع کرنے اور خرچ کرنے، یتیم خانہ چلانے، کچرا اٹھانے   جیسے کام بھی  مرکزی و صوبائی حکومتیں سرانجام دینے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں۔یہاں   اختیارات  کی مرکزیت کا یہ حال ہے کہ  پرائمری سکول میں بننے والا ٹوائلٹ  صوبائی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہوتا ہے، جبکہ اس سکول کے استاد کی ترقی و تعیناتی کے سمریوں پر صوبے کا چیف منسٹر دستخط کرتے نظر آتا ہے۔ بادی النظر میں یہ  کوئی صحیح الدماغ لوگوں کا کام نہیں مانا جا سکتا ۔  اختیارات کی مرکزیت کا اگر یہ عالم ہو گا تو کیا کسی سرکاری دفتر یا  حکومتی اہلکار کی اکائونٹبلٹی  کا  تصور بھی کیا جا سکتا ہے ؟اگر کسی سرکاری دفتر یا اہلکار کو اس کے انجام دیئے گئے کسی ٹھیک یا غلط کام کے لئے جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا  تو ریاست  یا حکومت کی اکائونٹبلٹی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

کوئی بھی حکومتی نظام عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے، عوام  کے وسائل سے ٹیکس حاصل کر کے اس سسٹم کے کِل پرزوں کو چلا یا جاتا ہے    اور یہ مانا جاتا ہے کہ سسٹم  کا فائدہ اس کے تحت بسنے والے عوام کو گا۔ روشن خیال معاشرے  حکومتی نظام کو عوام کے سامنے جوابدہ اور عوام کی مرضی اور منشا کے تابع  رکھتے ہیں ۔ عوام کی فلاح کی بابت فن لینڈ اور امریکہ کی مثال سامنے رکھیں تو  ایک فنش  54ہزار ڈالر کی أوسط سالانہ آمدنی رکھتا ہے جبکہ ایک عام امریکی70  ہزار ڈالر کی اوسط سالانہ آمدنی سے مستفید ہوتا ہے  جبکہ پاکستان جیسے با وسائل ملک کا باسی صرف 16سو ڈالر کی اوسط سالانہ آمدنی  کا حامل ہے۔عوام کو  جوابدہی  اور عوام کے اختیار کے حوالے سے عرض کیا جائے تو   اگر الاسکا  کے شہری رات کو امریکی شہری کی حیثیت سے سو جائیں اور انہوں نے فیصلہ کیا ہو کہ صبح الاسکا امریکی فیڈریشن کی ایک  ریاست نہیں بلکہ ایک   آزاد ملک ہو گا، تو ایسا عملی طور پر  واقع ہو جائے گا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی طاقت نہیں ، نہ امریکی کانگریس اور نہ امریکی سینٹ  کہ وہ ایسا ہونے سے روک سکے۔ امریکی صدر کو  تو ویسے بھی آئین کے تحت صرف ایک اختیار کا حاصل ہے "اعلان جنگ" کا  اختیار ( گو کہ  یہاں بھی اصل اختیار کانگریس کا ہے )، اور صدر  اگر بحیثیت کمانڈر انچیف اعلان جنگ کا  اختیار  استعمال کر بھی لیتا ہے تو  بھی زیادہ سے زیادہ  4گھنٹے   کے اندر  اسے کانگریس  کی توثیق  چاہیے ہو گی۔  باقی معاملات میں تو عوام اصل اختیار کے حامل ہیں اور وہ اس اختیار کو استعمال کر کے اپنا علیحدہ ملک تک  قائم کر سکتے ہیں۔

اگر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے نظام حکومت کا موازنہ پاکستان  ، برونڈی، پیراگوئے یا جارجیا  یا  جیسے پسماندہ ممالک کے ساتھ کیا جائے تو حد درجہ مرکزیت  کے حامل حکومتی نظام کے علاوہ جو دوسرا اہم عنصر یہ نظر آتا ہے کہ یہاں پر کوئی ادارہ نہیں بلکہ فرد  یا چند افراد فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں ۔ یہ فیصلہ ملک کے وزیراعظم کے تعیناتی و برخاستگی ہو یا  کسی پرائمری سکول میں  استاد کی تعیناتی ، سسٹم  اور پالیسی کے تحت نہیں بلکہ فرد کی  پسند نا پسند کے تحت طے پاتا ہے۔

سوال یہ ہے پاکستان میں  اختیارات کی اس قدر مرکزیت کا حقیقی فائدہ  کون اٹھا رہا ہے ؟ اگر عوام اس نظام کے منفعت مند نہیں اور اگر یہ نظام عوام کو جوابدہ نہیں تو اس نظام کو قائم رکھنے میں دلچسپی کس کی ہے؟ اس ملک کے حقیقی حکمران خواہ وہ پس پردہ رہ کر حکمرانی کر رہے ہوں یا فیلڈ مارشل بن کر، ان کے لئے تو سٹیس کو اور فیصلہ سازی کی مرکزیت ہی فائدہ مند ہے مگر کیا  عوام کے  ووٹوں سے منتخب   ہونے والے کسی قائد جمہوریت، کسی دختر مشرق،  کسی قائد انقلاب،  فرزند پاکستان ، شیر پاکستان وغیرہ نے اختیار کی شاندار مرکزیت کے  حامل اس نظام کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی ؟

جی ہاں ایسی کوششیں وقتا فوقتا ہوتی رہی ہیں جن میں اولین  کوشش قائد اعظم   محمد علی جناح کی ہدایت پر جسٹس منیر کمیشن   کا قیام تھا اور آخری قابل ذکر کوشش نواز شریف  کے دور حکومت میں  احسن اقبال کی ایگزیکٹیو سروس   کےقیام  کی کوشش تھی مگر نوآبادیاتی دور کے تشکیل دئیے گئے  "افسر شاہی " نظام کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی بھی کوشش  اقتدار پر اس کے کنٹرول  اور اثر و نفوذ کو کم نہیں کرسکی۔  

افسر شاہی کا  یہ نظام تشکیل دیتے وقت کمپنی سرکار کے پیش نظر عوام  کی فلاح  و بہبود  یا نظام کو عوام کے سامنے جوابدہ رکھنے  کا ہر گز کوئی مقصد نہ تھا بلکہ  ان کا مقصد اپنے  اقتدار کا دوام اور مقامی وسائل  پر کنٹرول تھا، اس لئے ان کا تشکیل دیا گیا نظام ان کی مقاصد کی بجاآوری کما حقہ کرتا رہا۔ چونکہ وہ نظام آج بھی   قائم ہے  اس لئے اس پورے نظام میں عوام  کسی بھی سطح پر  توجہ کا مرکز نہیں بلکہ  یہ نظام  صرف "حکمران طبقے " اور اس نظام کے کِل پرزوں ، جسے افسر شاہی  یا بیوروکریسی کہا جاتا ہے  کو مرکز بنائے، انہی  کے فائدے اور نقصان کو سامنے رکھ کر چل رہا ہے۔ یاد رہے کہ حکمران سے یہا ں مراد صرف  جاگیردار و سرمایہ دار سیاستدان ہی نہیں بلکہ "حقیقی" حکمران  ہیں،  جن کی ابتدائی و درمیانی زندگی" آفیسر میسوں "  میں لنچ و ڈنر کرتے اور گالف کلبوں میں وقت بیتاتے جبکہ آخری زندگی لندن، استنبول اور پیرس  کی رنگین فضائوں میں  سیر سپاٹے کرتے گزرتی ہے۔ ہاں موت کے بعد  انہیں ضرور اسی مٹی  کے سپرد کیا جاتاہے جسے وہ ساری زندگی روندتے رہے ہوتے ہیں۔

ماضی میں، بالخصوص انگریز دور حکومت میں،  اس افسر شاہی  نظام نے ہیکل اساسی (انفراسٹرکچر) بالخصوص نظام مواصلات کی ترقی  اور امن کے قیام  میں قابل رشک کردار ادا کیا مگر  اس  ترقی اور امن کا مقصد عوامی فلاح    تو  نہ تھا بلکہ اس کا بنیادی مقصد   انگریز سرکار کو پرامن ماحول میں لوٹ کھسوٹ کا موقع فراہم کرنا ، محصولات  جمع کرنا اورمقبوضہ جات میں  ان کی آمدورفت کو سہل بنانا تھا۔  بدلے میں اس افسر شاہی کو  مقامی لوگوں پر بے لگام اختیار ات اور وسائل میں سے " ہڈی"   بطور انعام حاصل کرنے کی اجازت تھی۔

 برصغیر میں انگریز حکومتی نظام  کے تین بنیادی کِلیں تھیں، فوج، افسر شاہی اور جاگیردار۔افسر شاہی کے مزید تین طبقات تھے جن میں انتظامیہ کے تحت پولیس اور عدالتوں کا نظام موجود تھا۔اس نظام میں نہ تو عوام کا کوئی عمل دخل تھا اور نہ  ہی اس نظام کی کوئی کِل عوام کو جوابدہ تھی۔ ہر کِل  کا بنیادی فرض  و ذمہ داری  حکمرانوں کی بلا چوں و چرا وفاداری  اور ان کے احکامات کی بجا آوری تھی، اس فرض کو  اس نظام نے اس وقت بھی گورے انگریزوں کے لئے  بخوبی سرانجام دیا اور آج بھی پوری تندہی کے ساتھ اسے   کالے انگریزوں کے لئے انجام دے رہا ہے۔

انگریز سرکار تو اپنا عرصہ حیات پورا کر کے ختم ہو گئی مگر اس کا تشکیل دیا گیا  نظام اپنی تمام تر حشر سامانیوں کا ساتھ آج میں موجود ہے ۔ اس سسٹم کا آج بھی  کمال یہ ہے کہ اس کے کِل پرزے    حکمرانوں کے لئے  وسائل "جمع" کرتے ہیں  اور بدلے میں اختیارات  (گو کہ انتظامی  حد تک وہ تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں) اور وسائل میں سے جائز و ناجائز حصہ حاصل کر سکتے ہیں ،جو رسمی بھی ہے (تنخواہوں، گاڑیوں اور دیگر مراعات  کی شکل میں ) اور غیر رسمی بھی  (کھلے عام  یا ڈھکی چھپی کرپشن کی  اجازت کی شکل میں)۔ اس نظام کو تبدیل کرنے کی  کوئی بھی کوشش   کارگر ثابت نہیں ہو سکی۔  

جاگیردار ی نظام ، جو خلاف آئین بھی ہے، خلاف شریعت بھی اور خلاف عقل بھی مگر  بھرپور وجود  کے ساتھ آج بھی اقتدار کو سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے ۔ پاکستان کے ساتھ ہی قائم ہونے والے بھارت کا جاگیردارانہ نظام مدت ہوئی خاک ہو گیا مگر پاکستان میں نہ صرف  روایتی جاگیردار طبقہ پوری حشر سامانیوں کے ساتھ آج بھی موجود ہے بلکہ اس کے متوازی  ایک غیر روایتی جاگیر طبقہ بھی پروان چڑھ چکا ہے  جو گیلنٹری ایوارڈز کے تحت  حاصل کی گئی بڑی بڑی جاگیروں کا  مالک بن چکا ہے ۔ یہ وہ جاگیریں ہیں جن کے لیے مواصلاتی نظام،  کچھی اور رینی کینالز  جیسی نہروں کا آبپاشی کا نظام   اور  آبادکاری کی ہر ممکن سہولت سرکاری خزانے سے  فراہم کی جاتی ہے مگر  اس کا فائدہ صرف  وہ مخصوص  گروہ اٹھا رہا ہے جس  کا پورا وجود پہلے ہی  ہن دولت سے لتھڑا پڑا  ہے۔  اس طبقے کی تعداد اور اس کی دسترس میں موجود وسائل  میں انتہائی خطرناک رفتار سے اضافہ جاری ہے ۔  نوآبادیاتی دور  کے نظام حکومت کی تین اکائیوں میں سے جس اکائی نے سب سے ذیادہ قوت اور طاقت حاصل کی ہے وہ  عسکری قوت  ہے ۔ بلکہ یہ کہنا  زیادہ مناسب ہو گا  کہ   نوآبادیاتی دور کی عسکری طاقت موجودہ  عسکری  طاقت کا عشر عشیر بھی نہیں تھی، (یہ حوالہ ملکی وسائل  پر اس کے کنٹرول کے تناظر میں ہے، حقیقی عسکری طاقت جو عوام یا ریاست کی جغرافیائی حدود کی حفاظت کے لئے ہوتی، کے حوالے سے نہیں۔  بنگلہ دیش،   سیاچن،گلگت بلتستان  کا  گائوں تر تک ، 5200مربع کلو میٹر کا چین کو  دیا گیا شکسگام  وغیرہ یہ ثابت کرنے  کے لئے کافی ہیں کہ یہ حقیقی  عسکری طاقت نہیں بلکہ   کچھ اور ہے)۔

موجودہ نظام سے فائدہ ، کم و بیش تناسب کے ساتھ، یہی تین اکائیاں اٹھا رہی ہیں اور کسی بھی فرد یا ادارے کی ہر اس کوشش  کو یہ مل کر ناکام بنا دیتی ہیں جو اس نظام میں کسی بنیادی تبدیلی کی کوشش کرتا ہے۔ نظام کی مرکزیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اسے کنٹرول کرنا انتہائی  آسان ہوتا ہے ۔  اقتدار کی کسی بھی کِل پر براجمان فرد کسی  بھی جائز و نا جائز  عمل کو انجام دینے کے لئے اس  حکومتی جز کی پوری قوت جھونک دینے میں ذرہ بھر نہیں ہچکچاتا  جس سے اس کا ذاتی مفاد وابستہ ہو یا  کسی بالائی قوت کی خوشنودی  وابستہ ہو۔   چونکہ  اپنے اس عمل  کے لئے وہ کسی فورم یا عوامی عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ، اس لئے وہ کوئی بھی غیر قانونی حتیٰ کہ غیر اخلاقی کام بھی دھڑلے سے انجام دے لیتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اسے کسی احتساب یا باز پرس کی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی۔

اس شدید مرکزیت کے حامل نظام  کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ اقتدار پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے ریاست کے کل وسائل پر کنٹرول بھی انہیں طبقات کو حاصل ہے جو اس نظام کا  حصہ بن جاتے ہیں۔ اور ان طبقات کے درمیان وسائل کی تقسیم ان کی اقتدار میں درجہ بندی کی بنیاد پر ہے۔ بلند ترین درجہ پر فائز شخص سب سے ذیادہ باوسائل ہو گا تاہم اس کی اسفل ترین سطح پر موجود شخص بھی وسائل سے محروم نہیں رہے گا۔ محروم صرف  وہ رہے گا جو اس نظام سے باہر ہو گا۔  

اس نظام کا تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ سب کچھ ، خواہ درست ہو یا غلط، پس پردہ ، عوام کی دسترس سے دور اور ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ، انجام دینا نہایت آسان ہے۔ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ عوام کو علم تک بھی نہیں ہو گا، اگر کسی غلط کاری کا علم ہو بھی جائے ، اس کا ثبوت نہیں ہو گا اور اگر ثبوت بھی تو چونکہ عوام کو جوابدہی  کا اختیار ہی نہیں اس لئے، احتساب  ایک بعید از قیاس خیال سے ذیادہ کچھ نہیں  ہو گا۔ یوں عوامی وسائل لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو کر سرے محل، مے فیئر فلیٹس،عبدالقادر ٹرسٹ،  پاپا جانزپیزا کی چینز اور آسٹریلیا  و ترکی  کے جزائر   پر تعمیر ہونے والے بنگلوں میں استعمال  ہوں گے اور کوئی  احتساب کا سوال بھی نہیں کر سکے گا۔

چونکہ اس نظام  اقتدار  و حکومت کے پیش نظر   ریاست یا عوام کی فلاح نہیں ،اس لئے  اس نظام میں عوام کی شرکت اور اسے عوام کی سامنے جوابدہ بنانا بھی پیش نظر نہیں ۔ نظام جس درجہ کی مرکزیت  کا حامل ہو گا، اس  پرکنٹرول حاصل کرنا بھی اسی درجہ  آسان ہو گا۔  اس لئے ترقی یافتہ قوموں نے اپنے نظام ہائے ریاست و حکومت کو حد درجہ  ڈیوالوڈ کر دیا ہے، اسے عوام کے حوالے کر دیا ہے اور اسے کھلا ڈھلا بنا دیا ہے۔ ریاست  کے مالک  عوام ہیں تو اختیار و  اقتدار کے حامل بھی عوام ہوں اور ریاست و حکومت عوام کے سامنے ہی جوابدہ  ہو۔ یہ  وہ راز ہے جو مغرب و مشرق کی جس قوم نے بھی پایا ہے ، ترقی  کی منازل طے کرتی گئی ہے۔  اس سے صرفِ نظر کرنے والے ایشاء و افریقہ و جنوی امریکہ  والے پسماندگی کی گہرائیوں میں آج بھی غوطہ زن ہیں اور اس باہر آنے کا مستقبل قریب میں بھی کوئی امکان نہیں۔

No comments:

Post a Comment