Search This Blog

Saturday, January 30, 2016

جب تک تم کفر کا اعلان نہیں کرتے، ان کو قرار نہیں


اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے ایک لمبا عرصہ غار حراء میں عبادت کرتے اور اللہ کی بنائی کائنات پر غور و فکر کرتے گزارا۔ اللہ کے نبی کے غار حراء میں گزارے اس عرصے کو اولیاء اللہ نے تصوف کی بنیاد کے طور پر اپنایا ۔ انہوں نے تصوف کے مختلف سلسلوں نقشبندیہ، سہروردیہ، چشتیہ وغیرہ کی بنیادیں رکھیں۔ خانقاہیں قائم کیں، مراقبے کرنے اور اللہ سے لو لگانے کے مختلف انداز اختیار کیے۔ ہزارہا لوگ ان سلاسل سے منسلک رہے اور آج بھی دنیا بھر میں یہ سلسلے قائم ہیں۔ تصوف کے معلوم سلسلوں میں براعظم افریقہ کے طول و عرض میں قائم ہونے والا سنوسی تحریک کا سلسلہ سب سے بڑا اور ہمہ گیر مانا جاتا ہے۔ تیونس کے سید محمدابن علی السنوسی کی قیادت میں قائم ہونے والے اس سلسلے کی وسعت کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ سنوسیوں نے افریقہ کے طول و عرض میں چالیس ہزار سے زائد خانقاہیں قائم کی تھیں جنہیں زاویہ کہا جاتا تھا۔مصر، سوڈان، لیبیا، تیونس اور مراکش وغیرہ میں پھیلے اس حیران کن نیٹ ورک کی خاص بات یہ تھی کہ ہر خانقاہ کے ساتھ ایک مدرسہ، مسافروں کے لئے سرائے، پانی کا تالاب اور کھیلوں کا میدان جہاں تیغ زنی و نیزہ بازی کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے، قائم کئے گئے تھے۔ ان زاویوں کے ساتھ منسلک یا ان کے تربیت یافتہ افراد خالی خولی صوفی ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے اپنے وقت کی ایک بڑی طاقت اٹلی کو شمالی افریقہ کےطول وعرض میں ناکوں چنے چبوائے تھے۔ شمالی افریقہ کا عظیم مجاہد عمر مختار اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس نے سنوسی مجاہدین کے ہمراہ اٹلی کے خلاف ایک بے مثل جنگ لڑی تھی۔ جبکہ قفقاز و داغستان کا عظیم مجاہد امام شامل بھی نقشبندی سلسلے کا صوفی تھا۔ہندوستان و پاکستان کے طول و عرض میں دین اسلام کو پھیلانے والے بہاءوالدین زکریا ملتانی، خواجہ اجمیرچشتی، شیخ بختیار کاکی، شیخ احمد سہرہندی المعروف مجدد الف ثانی، داتا گنج بخش اور ان جیسے کئی دوسرے اولیاء کرام تصوف کے مختلف سلسلوں سے تعلق رکھتے تھے۔
جب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کریم نے نبوت سے سرفراز فرمایا تو انہوں نے مکہ مکرمہ کی ۱۳ سالہ زندگی میں دعوت و تبلیغ کے زریعے کفار مکہ کو دین اسلام کی طرف دعوت دی۔ چند خوش بخت و سعادت مند اس دعوت سے بہرہ مند ہوکر دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ٹھہرے اور ابوجہل جیسے بدبخت اس دعوت کی راہ میں روڑے ہی اٹکاتے رہے۔ نبی مہربان کی اس جدوجہد اور سنت کو تازہ کرنے کی بے مثال تحریک ۱۹۲۷ میں محمد الیاس کاندھلوی صاحب نے 'دعوت و تبلیغ' کے نام سے شروع  کی۔ یہ تحریک نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی ایک عظیم جدوجہد میں ڈھل چکی ہے۔ لاکھوں افراد اس تحریک سے وابستہ ہو کر دنیا بھر میں اسلام کے پیغام عظیم الشان کو عام کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے وہاں پر پہلی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی۔ مدینہ میں اسلام صرف تصوف و تبلیغ تک محدود نہ رہا بلکہ زندگی کے تمام شعبوں معاشرت، معاشیات، جہاد و قتال، بین الاقوامی وعلاقائی امور، انفرادی و اجتماعی معاملات الغرض ہر شعبہ زندگی کےلئے راہنما و حاکم قرار پایا۔ نبی مہربان  اور ان کے خلفاء نے اگلے ۳۰ سال تک اس نظام کو اس کی اصلی حالت میں قائم رکھا۔  وقت گزرتا رہا، خلافت، ملوکیت میں بدل گئی، ذاتی  پسند ونا پسند اسلامی قوانین و اقدار سے بالادست کر دی گئی اور اسلام کا حقیقی رخ فرقوں اور گروہوں کی ذاتی اقدار کی دبیز تہوں میں دب کر رہ گیا مگر تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسلام کی حقیقی تصویر کو زندگی کا نصب العین قرار دینے والے افراد یا گروہ موجود نہ رہے ہوں۔ امام احمد بن حنبل و امام شافعی سے شاہ ولی اللہ و مجدد الف ثانی تک ہزارہا داعیان اسلام ، اسلام کی بالادستی کی جدوجہد کرتے رہے۔ اسلام کے اس رخ کےلئے موجودہ وقت میں 'سیاسی اسلام ' کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ جمہوریت کے حسین نام سے موسوم دور جدید کے استعماری نظام کے اندر رہتےہوئےاسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کی بھی ایک لمبی قطار اور درخشاں تاریخ ہے۔ 'سیاسی اسلام' کے پیروکاروں کی سب سے بڑی تحریک عالم عرب میں پروان چڑھی جسے اخوان المسلمین کہا جاتا ہے۔اخوان المسلمین نے موجودہ جمہوری نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے عالم عرب کے کئی ملکوں میں کامیابی حاصل کی جن میں الجزائر، مراکش، تیونس، مصر، فلسطین وغیرہ شامل ہیں۔ ہند و پاکستان میں جماعت اسلامی اس 'سیاسی اسلام' کی سب سے بڑی علمبردار ہے تاہم اس خطہ میں دیوبند مسلک سے وابستہ جماعتیں بھی کم و بیش انہی نظریات کی علمبردار ہیں۔
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ۷۲ جنگوں میں بہ نفس نفیس حصہ لیا ۔ انہوں نے نہ صرف مکہ مکرمہ و طائف و حنین کو عظیم فوجی مہمات کے ذریعے فتح کیا بلکہ اپنے وقت کی عظیم ترین فوجی طاقت روم کے خلاف بھی ٢٤ ہزار کے جرار لشکر کی قیادت کی۔  یہ لشکر مدینہ سے نکلا اور اس وقت کی رومی سرحد کے قریب تبوک میں لنگر انداز ہوا۔ اگرچہ جنگ کی نوبت نہ آئی مگر اس لشکر کشی نے یہ ثابت کردیا کہ حجاز میں ایک نئی طاقت نمودار ہو چکی ہے جس کا سامنا کرنے کی جرات روم بھی نہیں کر سکتا۔  نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے اپنی تلوار کی طاقت سے دنیا کا نیا نقشہ بنایا تھا جس کے تحت اندلس سے چین تک ان کے مقابلے میں کوئی طاقت باقی نہ تھی۔فوجی طاقت کے ذریعے سے مسلمانوں کی بالادستی کے حصول کی جدوجہد ۱٤ سو سال میں کبھی بھی ماند نہیں پڑی ۔طارق بن زیاد، قتیبہ بن مسلم، عقبیٰ بن نافع اور یوسف بن تاشفین جیسے جری مجاہدوں نے ملک در ملک فتح کر مسلمانوں کی بالادستی کے جھنڈے گاڑے۔ اس سلسلے کی آخری کامیاب کوشش دیوبندی مکتبہ فکر کے پیروکاروں کی طرف سے افغانستان کی فتح تھی۔ اگرچہ ان کی کامیابی کا دورانیہ انتہائی مختصر تھا مگر انہوں نے یہ ثابت کیا فوجی قوت سے ملک آج بھی فتح کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہوا اگر ان کی حکومت گرا دی گئی، حکومتیں تو امام حسن و عبداللہ بن زبیر کی بھی گرائی گئی تھیں، حکومت تو عمر بن عبدالعزیز کو بھی نہیں کرنے دی گئی تھی، حکومت تو  امام شامل کی بھی گرائی گئی تھی،سنوسیوں کے زاویوں کو بھی بارود سے تباہ کیا گیا تھا، الجزائر و مصر کے اخوانی فاتحین بھی جیلوں میں قید کر دئیے گئے  ہیں اور جماعت اسلامی جندول میں الیکشن جیت کر بھی اپنے نمائندے کو ایم پی بنانے سے قاصر ہے۔
 پنجاب حکومت نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کر کے کون سا نیا کام کیا ہے۔ آپ لاکھ کہیں کہ ہمیں آپ کی حکومت سے کوئی سروکار نہیں ، آپ کی قومی و صوبائی اسمبلیاں و دفاتر بھی آپ کو مبارک ہوں، آپ کے پروٹوکول اور عوام کےٹیکس کی رقم پر کی جانے والی عیاشیوں پر بھی ہم لب کشائی نہیں کریں گے بس ہم تو صرف نماز روزہ اور اللہ و رسول کے بات کریں گے۔
ہرگز نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اللہ و رسول کی بات کریں اور ہم ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کر لیں۔ آپ بزور قوت تو اسلام نافذ  کرنے کے بارے میں سوچیں بھی مت، الیکشن جیت کر حکومت میں آنے کے خواب بھی ہرگز نہ دیکھیں ،آپ اللہ ورسول کے نام پر دی جانے والی نماز روزے کی دعوت سے بھی باز رہیں۔ ہمیں تو یہ بھی گوارہ نہیں کہ آپ اپنی خانقاہوں میں زیر لب اللہ اور اس کے رسول کا نام لیں۔ یاد رکھیں ہم تمہیں اس وقت تک چین سے نہ رہنے دیں گے جب تک تم کفر کا اعلان نہیں کرتے۔

2 comments:

  1. Mashallah well prepared article ... keep writing Yasir Imran bhai...Jamal Uddin

    ReplyDelete